خدا خدا کرتے کرتے اور بالآخر آخر کار پشاور کی تاریخ کا سب سے بڑے منصوبے بس ریپڈ ٹرانزٹ کا بقاعدہ طورپر آغازہوچکا ہے، جسکا اکتوبر 2017 سے قوم کو انتظار تھا۔ اکتوبر 2017 میں بی آرٹی پراجیکٹ کا جب سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویزخٹک نے آغاز کیا تو اعلان کیا گیا تھا کہ صوبے کا ایک بڑامنصوبہ یعنی بس ریپڈ ٹرانزٹ پروجیکٹ کو چھ ماہ میں مکمل کیاجائیگا، تاہم 13 اگست 2020 کو وزیراعظم پاکستان عمران خان کیجانب سے بقاعدہ طور پر افتتاح سے قبل 7 سے 8 مرتبہ صوبائی حکومت کیجانب سےاعلانات کئےگئےتھے، کہ فلاں تاریخ کوبی آرٹی منصوبےکا افتتاح کیاجائےگا۔ ان اعلانات کے بعد عوامی سطح پر تشویش بڑھ گیا تھا، کہ اعلانات تو کئے جاتے ہیں، لیکن عملاً ایسا کچھ نہیں دکھائی دے رہا۔ اسی طرح ملکی تمام اپوزیشن جماعتیں بھی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تو اتر سےبی آرٹی پراجیکٹ پر تنقید کا نشانہ بناتی رہیں۔ 13 اگست کو خود وزیراعظم عمران خان نے منصوبے کا افتتاح کرکے تمام ترشکوک و شہبات ختم ہوچکے ہیں۔ اب بقاعدہ طور پر پشاور کے علاقے چمکنی سے کار خانو بازار تک بی آرٹی کی بسیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: باچاخان کےسرخ پوش سپاہیوں کی ماضی کی عظیم قربانیاں، تحریک کا لڑکڑاتا مستقبل۔ تحریر فخر کاکاخیل
منصوبےکی کل لاگت کےحوالےسےاس وقت اعلان کیا گیا تھا کہ 49 ارب سےزائد کی لاگت سے منصوبے کو مکمل کیاجائےگا تاہم حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اب تک کل لاگت 70 سے 72 ارب تک آچکی ہے۔ اسی طرح آغاز سے لیکر افتتاح تک 30 تک بڑے اور 100 سے زائد چھوٹے نقائص سامنے آچکے۔ ایک ایسا منصوبہ جسکا سنگ بنیاد رکھا گیا اور صوبائی کابینہ سے منظوری بعد میں لی گئی تھی۔ جماعت اسلامی سےتعلق رکھنے والے اور اس وقت کےصوبائی وزیر بلدیات عنایت اللہ خان نےاس منصوبے کی مخالفت کی تھی، کہ تحریک انصاف کی حکومت کو مکمل تیاری کیساتھ منصوبےکا آغاز کرناچاہیئے۔ جہاں منصوبے کا ٹھیکہ صوبہ پنجاب میں ایک بلیک لسٹ مقبول اینڈ کولسن نامی کمپنی کو دیا گیا گیا، تو وہاں منصوبہ نیب خیبرپختونخوا کی رپورٹ پشاور ہائی کورٹ کی ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم، وزیراعظم کی جانب سےلاگت بڑھنے کے حوالے سے ایک تحقیقات کاحکم، منصوبے کیلئے قرضہ دینے والی ایشائی ترقیاتی بینک کا ایک اعتراضی رپورٹ، پی ڈی اے کے تین ڈی جیز کے تبادلے، جمعیت علمائےاسلام کی جانب سے دورانیہ کےحوالے سے عدالت کا رجوع، پراجیکٹ مانٹیرنگ یونٹ کی بندش، صوبائی حکومت کا سپریم کورٹ سےسٹےآرڈرلینا، صوبائی حکومت کی تحقیقاتی ٹیم کی اپنی ایک رپورٹ جسمیں منصوبہ پرسوالات اُٹھائےگئے، جیسےکئی مراحل سےگزرچکی ہے۔ منصوبے پر تاحال کام جاری ہیں جیسا کہ دو ڈپوز، تین پلازے، سائیکل ٹریک جیسےاقدمات تا حال نا مکمل ہیں تاہم صوبائی حکومت کے مطابق باقی ماندہ کام جلد مکمل کیا جائےگا۔
منصوبے پر جب کام کا آغاز ہوا تھا تو ایمرجنسی صورتحال سےنمٹنےکیلئے ریسکیو 1122 کی رپورٹ سامنےآئی تھی۔ اسی طرح نکاس آب نظام کی خرابی سمیت کئی معاملات کےحوالے سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ لگ بھگ 27 کلومیٹر پر مشتمل منصوبےکیلئے زیادہ تر بسیں آگئی ہیں، کچھ آنی ہیں، سائیکلیں پہنچادی گئی ہیں۔ تمام 31 سٹیشنز مکمل کرکے زو کارڈ بنانے سے لیکر سیکورٹی اقدامات تک جدید ٹیکنالوجی سےآراستہ کئے جا چکے ہیں۔ فی الحال چلنے والی 90 بسوں میں ایئرکنڈیشنز سےلیکرموبائل چارجنگ پلگزتک تمام ترسہولیات موجود ہیں۔
منصوبے کا ماضی جیسابھی گزراہے، اب چونکہ باقاعدہ طور پر افتتاح کے بعد بس سروس کا آغاز ہوگیا ہے۔ اسی طرح جلد عوامی سہولت کیلئے فیڈر روٹس پربھی بی آرٹی کی بسیں چلیں گی۔ اسی لئےاسکی کامیابی کی ذمہ داری جہاں حکومت پرعائد ہوتی ہے، تواس سےکہیں گنا زیادہ ذمہ داری عوام ہی کی بنتی ہے۔
یہ بھی ملاحظہ کیجئے: بی آر ٹی انوکھا منصونہ،پی ٹی آئی کا سیاسی عجوبہ۔ تحریر : سید زاہد عثمان
اسمیں کوئی شک نہیں کہ عوامی سطح پرڈھائی سال سےزائد عرصہ نہ صرف منصوبہ تنقیدکی زدمیں رہابلکہ ٹریفک نظام سمیت عوام کوکافی تکالیف سےبھی گزرناپڑا۔ منصوبے کے باعث ٹرانسپورٹرز، تاجر سمیت کئی لوگ وقتافوقتا متاثر ہوچکے ہیں، انکا ازالہ توحکومت کا کام ہے لیکن جب سےافتتاح ہوچکا ہے کھا جا رہا ہے، کہ دوسرے ہی دن ایک سیکورٹی گارڈ کو تشدد کا نشانہ بنا یا گیا۔ اسی طرح ہنگامہ آرائی کی گئی۔ ماضی میں بی آرٹی منصوبے کا سریا چوری ہوتا رہا۔ اکثراوقات دیکھنےمیں آرہاہے، کہ جنگلوں پر ایک بڑی تعداد میں لوگ پلانگ لگاتے رہتے ہیں، لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں۔ منصوبےکی آپریشنز کا چونکہ ابتدائی دن ہیں۔ بے تحاشہ رش دیکھنےکومل رہاہے۔ سٹیشنز ہو یا بسوں میں سواری لیکن عوام بھاری کا انتظار نہیں کررہے ہیں۔ طلبہ ہو، نوکر پیشہ لوگ، معزور، بزرگ افراد، خواتین، بیمار وغیرہ لہذا ہم سب شہریوں کی ذمہ داری بنتی ہے، کہ انکا پورا احترام کیا جائے۔ صفائی ستھرائی، سیکورٹی پرمامور افراد، سٹیشنز کےتمام ترسٹاف سے مکمل تعاؤن کرنا، بسوں کا خیال رکھنا سمیت کئی ایسےکئی پہلو جنکی دیکھ بھال کی ذمہ داری اگرحکومت پرعائد ہے تواس سے بڑھ کر ہم سب شہریوں پر بھی لازم ہے، کہ جیسابھی ہےاب چونکہ منصوبے شروع ہوچکا۔ اربوں روپےخرچ ہوچکے ہیں، اور یہی پیسہ اسی قوم کاہے۔ ماضی میں حیات آباد میں بی آرٹی بس کی ٹکر سےایک خاتون کی شہادت کا واقعہ رونما ہوچکاہے لہذا بھر پور ذمہ داری کیساتھ ہمیں بطور قوم اس منصوبہ کواپنانا ہوگا، تاکہ مستقبل میں خدانخواستہ کوئی سانحہ یا واقعہ رونما نہ ہو اور اسی طرح جس مقصد کیلئے یہ منصوبہ شروع کیاگیاہے، کامیابی کیساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہو۔ ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ طبقےکومنصوبے کی کامیابی کیلئےعوامی سطح پر بھرپور شعور بیدارکرنے کیلئے ذمہ دارانہ کردار آدا کرنا ہوگا، ایک قوم کی طرح ایک ہجوم کی طرح نہیں۔