کیا لڑانے والے کامیاب نہیں ہوئے ؟؟؟ خصوصی تحریر: رسول داوڑ

چند روز قبل رات نو بجے میڈیکل کالج ڈیوٹی سے گاوں واپسی پر ہردلعزیز ڈاکٹر ولی اللہ داوڑ میرعلی بائی پاس کے قریب جاری فائیرنگ کی زد میں آکر گاڑی کے اندر گولی کا نشانہ بنے اور موقع پر شہید ہوئے۔ لوگوں نے مرحوم کی درجات بلندی کے لئیے دعا اور غمزدہ خاندان کے ساتھ تعزیت شروع کی اور قاتلوں تک پہنچنے کے لئیے جوڈیشیل انکوائیری کا مطالبہ کیا،اس دوران صوبائی وزیر برائے ریلیف اقبال وزیر کے ٹیوٹر اکاونٹ سے مبینہ متنازعہ ٹویٹ ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ ڈاکٹر شہید نہیں بلکہ سیکورٹی فورسز نے ایک دہشت گرد کو مارا ہے۔ جس سے جانے انجانے میں ڈاکٹر ولی اللہ قتل کا الزام فورسز پر لگا وہ بھی صوبائی وزیر کی ٹویٹر اکاؤنٹ سے شائد اس لئیے مبینہ ٹویٹ کو ڈیلیٹ بھی کرنا پڑا چونکہ اقبال وزیر کے ٹیوٹر اکاونٹ ہینڈل کرنے والے کرک کے رہائشی نے روایتی انداز میں ٹیوٹ کیا ہوگا مگر بعد میں ان کی حساسیت کا اندازہ اور فون کالز آنے کے بعد ڈیلیٹ بھی ۔
وزیراعلی محمود خان کی مہربانی کہ جب ان سے کہا گیا کہ وزیر برائے ریلیف اقبال وزیر کو لگانا ہے تو لمحہ دیر نہیں کی سوچا ہوگا کہ کاعذات میں تو میٹرک پاس ہے بلے حقیقتا بے تعلیم تفصیل میں جانے کی بجائے ان کی سوشل میڈیا اکاونٹس ٹویٹر اور فیس بوک ہینڈل کرنے والے کرک کے نوجوان کی مجبوری سمجھے یا پھر ڈیوٹی کہ وہ ان جیسے پوسٹ کرتے ہیں جس کا خمیازہ منسٹر ریلیف کو بھگتنا پڑتا ہے ۔
ڈاکٹر کو دہشت گرد کہنے سے متعلق ٹیوٹ ہوا ہے یا نہیں اقبال وزیر تو اس کو فیک قرار دے رہے ہیں مگر اب یہ ایف آئی اے سائیبر کرائم وینگ کی دس منٹ کا کام ہے اگر وہاں کوئی بھی درخواست جمع کرے۔ ٹویٹ کے جعلی یا اصلی ثابت ہونے سے قبل سوشل میڈیا مجاہدین نے زمین آسمان ایک کردی شائید اس لئیے بھی کہ روایتی طور پر ان جیسے ٹیوٹ پہلے بھی اس اکاونٹ سے ہو چکے ہیں۔
ھم نے بھی منسٹر ریلیف سے واٹس ایپ کر زریعے اس ٹویٹ سے متعلق اردو میں میسیج بھیج کر جاننے کی کوشش کی تو انگریز میں فقط یہ جواب آیا کہ “فیک”۔
پشتو میں ضرب المثل ہے کہ “پہ پرادی لاس مار مہ مڑا وا “ اب منسٹر ریلیف کی کم علمی کے باعث یا مجبوری ہے کہ وہ خود ٹویٹ نہیں کرسکتے اور دیگر لوگ اپنی مرضی کی پوسٹ لکھ کر منسٹر کے اکاونٹ سے پوسٹ کر لیتے ہیں شائید ان کی یہاں تعیناتی کا مقصد بھی یہی ہو ۔
اب یہ مسئلہ ٹھنڈا ہی نہیں ہوا تھا کہ وزیر ریلیف اقبال وزیر اپنے گارڈز پولیس ، ضلعی انتظامیہ اہلکاروں اور سرکاری پروٹوکول کیساتھ شہید ڈاکٹر ولی اللہ داوڑ کی فاتحہ خوانی کی عرض سے میرعلی گاوں ہرمز روانہ ہوئے ایسی صورتحال میں انہیں نمائندہ وفد بھیج کر حالات کا جائزہ لینا چاہئیے تھا چونکہ عموماً بڑے لوگ یا سرکاری حکام کی ٹیم یا چند انٹیجلنس اہلکار پہلے بھیج کر حالات کا جائیزہ لیتے ہیں خیر اقبال وزیر نے اپنا علاقہ اور اپنے لوگ سمجھ کر شائید فاتحہ خوانی کی نیت سے ڈائیریکٹ وہاںپہنچے ہوگے ۔ منسٹر نے لوگوں سے مصافحہ کیا دعا کی اور ٹویٹ سے متعلق اپنی موقف دھرانے کی کوشش کی جہاں شہید ڈاکٹر کی قتل پر سخت رنجیدہ ڈاکٹر ہاشم نے منسٹر ریلیف سے ٹویٹ سے متعلق تند وتیز لہجے میں سوالات پوچھے جس پر سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا ۔
ختیٰ کہ بات تو تو میں میں سے فائرنگ تک جا پہنچی۔ ڈاکٹر ولی اللہ کی دعا اور تعزیت میں بیٹھے لوگوں سے معلوم ہوا کہ فائرنگ منسٹر کے گارڈ نے کی جس سے ڈاکٹر ہاشم پاؤں پر لگ کر زخمی ہوا جبکہ منسٹر کے مطابق فائرنگ قریبی گھر سے ہوئی اب تحقیقات ہوگی یا نہیں ایف آئی آر کا اندراج ہوگا یا نہیں حالات سنبھل گئیے یا بگڑ گئیے مگر اب ایک بات کنفرم ہے کہ شہید ولی اللہ قتل تحقیقات سے بات وہاں تک موڑ چکی ہے جہاں چاہنے والے چاہتے تھے ۔ اس واقعے کےبعد سوشل میڈیا پر الزامات کا ایک سلسلہ شروع ہوا کسی نے فقط اقبال وزیر کی موقف کو تو کسی نے اقبال مخالف طرف سے بات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی اس دوران کسی نے قومیت کا رنگ دیا تو کسی نے روایات کی خلاف ورزی قرار دی ہے ۔ دراصل یہ نہ تو قومیت کا مسئلہ ہے اور نہ ہی روایات کی پامالی کا ۔ اس مسئلے سے قبل ڈاکٹر ولی اللہ داوڑ شہید کے گاوں سے لوگوں نے ویڈیو بناکر وزیر ریلیف کو انکے گاوں ھرمز آنے سے منع کیا تھا جو ٹویٹ تحقیقات سے قبل مناسب نہیں تھا دوسری جانب جب منسٹر آئے بھی تو جاہ و جلال اور فل پروف سیکورٹی کیساتھ اس لئیے اس کو روایات پامالی کہہ سکتے ہیں نہ ہی قومیت کا مسئلہ ۔
دراصل منسٹر جن مقاصد کے لئیے جب تک منسٹر ہے وہ مقاصد ان جیسے واقعات کی روشنی میں پورے ہورہے ہیں جس دن مقصد پورا ہوا سابقہ معاون حصوصی اجمل وزیر کی طرح انہیں ٹیشو پیپر کی طرح پھینک کر اور منسٹر سے جتنے دستخط کروائیں ہیں بعد میں انہی کے گلے کا ہار بناکر انہیں پھنسانے کی کوشش کرینگے ۔ اس لئیے منسٹر کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے تو عوام کو صبر و تحمل کی ۔
ھم پہلے ہردلعزیز شہید ڈاکٹر ولی اللہ داوڑ کی فیملی کے لئیے شہید پیکیج اور قتل تحقیقات کے لئیے جوڈیشئل انکوائیری کا مطالبہ کررہے تھے اب ٹیوٹ کی حقیقت جاننے اور فائیرنگ کرنے والوں کی نشاندہی کے بھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں