کیا ہے یہ قرنطینہ ؟؟ تحریر: محمد کلیم قریشی

کوروناوائرس نے اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا ذکر اور خوف دنیا کے ہر کونے میں پھیل چکا ہے۔ دن بہ دن ہر چھوٹا ، بڑا اس میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے لیکن اسکا علاج صرف و صرف احتیاط ہے اور احتیاط کیلئے مریضوں کو قرنطینہ کیا جا رہا ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں اس حوالے سے خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے ۔ ہر اک سوال کرتا ہے کہ قرنطینہ کیا ہے؟ اس بارے میں کئی لوگوں میں تشویش پائی جا رہی ہے ۔ عوام کو کورونا وائرس اور قرنطینہ سے آگاہی فراہم کرنے میں میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہے، اگرچہ کئی صحافی کورونا کے شبے میں ٹیسٹوں کے مراحل سے گزر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود رپورٹرز اپنا کام محنت اور حفاظتی اقدامات کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اخبارات میں ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر کورونا وائرس (کووڈ ۔19 ) کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر اور تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ قرنطینہ ہے۔ قرنطینہ میں وبا زدہ علاقوں سے آنے والے مسافروں کو طبیبوں کی نگرانی میں دوسروں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ میں نے جو اس کے بارے میں پڑھا ہے اسکے مطابق یہ اطالوی زبان کا لفظ ہے اور اس کی اصل QUARANTINA ہے جو QURANTA سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب ہے چالیس دن علاج ۔ ابتدا میں قرنطینہ کی مدت 40 دن ہوتی تھی۔ اب یہ مدت بیماری کی نوعیت پر منحصر ہے۔ قرنطینہ کے دوران ہم ایک دوسرے سے زیادہ مل جل نہیں سکتے ۔ کسی چیز کو چھونے کے بعد فوراً آپ کو ہاتھوں پر سینیٹائزر لگانا ہوتا ہے۔ ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنے ہاتھ دھونے ہوتے ہیں اور ماسک کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ سوتے وقت بھی ماسک نہیں اتارنا ہوتا۔ اس وقت اٹلی میں کورونا وائرس کا زور ہے اور اس وقت وہ پورا ملک قرنطینہ میں ہے۔ اور اگر پاکستان کی بات کی جائے تو موجودہ حالات سے نمٹنے کیلئے ہمیں بھی قرنطینہ میں رہنا ضروری ہے یہ ہماری نسلوں کی بقاء کا سوال ہے۔ قرنطینہ نہ ہی قید ہے نہ کسی بیرونی سازش کا نتیجہ نہ ہی چھٹیاں گزارنے کا بہانہ۔ قرنطینہ ایسی تنہائی ہے یا سماجی دوری ہے جس میں آپ اپنی سرگرمیاں محدود کر دیتے ہیں یا حکومت آپ کے لیے ایسی جگہ فراہم کرتی ہے جہاں آپ کو دوسرے لوگوں سے میل ملاپ کی اجازت نہیں ہوتی۔ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لئے پاکستان میں بہت سے لوگوں کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ ایسے افراد جن میں وائرس موجود ہو اور انہیں قرنطینہ میں نہ رکھا جائے تو وہ وائرس پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ COVID-19 یعنی کرونا وائرس جس کا دورانیہ 5 سے لے کر 15 دن تک ہے۔ اس کے لئے کم از کم 15 دن سارے شہر کو اپنے اپنے گھر کو ہی قرنطینہ بنا کر رہنا ضروری ہے۔ 15 دن بعد صحت مند کو بیمار سے الگ کر کے علاج کے ذریعے بہتر کیا جا سکتا ہے۔ جسے بیماری سے لڑنا ہے اسے بھی طبی قرنطینہ میں رکھا جائیگا جہاں طبی امداد میسر ہو تاکہ وائرس سے اس جنگ میں دیگر لوگ اور خود مریض کا اپنا مدافعتی نظام اس کی مدد کر سکے یہ ہی واحد طریقہ ہے انسانی جسم میں داخل ہونے والے خطرناک وائرس سے لڑنے کا۔ خیبر پختونخوا میں سرکاری سطح پر قائم کچھ قرنطینہ مراکز سے بھی رابطہ ہوا اور وہاں سے کچھ معلومات وڈیو اور تصاور کی شکل میں موصول بھی ہوئی ہیں جن کا خلاصہ یوں ہے کہ کہیں بنیادی ضروریات کی کمی اور گندگی کی شکایات سامنے آئیں تو کہیں ایسے مریضوں کو کھیل کود کے لیے بھی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ صوبے میں کورونا مریضوں کی ٹیسٹنگ کی گنجائش روزانہ 100 سے بڑھا کر 300 کر دی گئی ہے اور اگلے چند دنوں میں یہ گنجائش مزید بڑھا کر روزانہ 500 کر دی جائیگی۔ محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق اس وقت خیبر پختونخوا میں 215 قرنطینہ مراکز ، 2400 بستروں کے آئسولیشن وارڈز اور 554 ہائی ڈپینڈنسی یونٹس قائم کئے گئے ہیں جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں وینٹیلیٹرز کی تعداد دگنی کر دی گئی ہے اور مزید وینٹیلیٹرز کی فراہمی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام جاری ہے جبکہ ہسپتالوں کو ضروری آلات اور حفاظتی سامان کی فراہمی میں دن بدن بہتری آ رہی ہے۔ ریپڈ رسپانس ٹیمیں تشکیل دینے کیلئے اب تک 15 ہزار رضاکاروں کی نشاندہی کی جا چکی ہے جو موجودہ صورتحال میں لوگوں کے گھروں تک رسائی کرکے انہیں بروقت رہنمائی اور امداد فراہم کر رہے ہیں۔ محکمہ داخلہ کے مطابق صوبے میں اشیائے خوردونوش کا وافر سٹاک موجود ہے ، ذخیرہ اندوزی کی کوشش کرنے والے عناصر پر کڑی نظر رکھنے کیلئے نگرانی کا ایک مؤثر نظام تشکیل دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں محکمہ خوراک میں ایک خصوصی کنٹرول روم بھی قائم کیا گیا ہے ۔ موجودہ صورتحال میں سول انتظامیہ ، پولیس اور پاک فوج کے درمیان روابط کو مثالی قرار دیا گیا ہے ۔جبکہ شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے ہیلتھ رپورٹرز بھی کورونا کے خلاف اس جنگ کے ہراول دستے میں موجود ہیں ۔ اداروں کے درمیان قریبی روابط کی وجہ سے صوبے میں اس وباء کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے میں بہت زیادہ مدد ملی ہے اور اُمید ہے کہ ادارے آئندہ بھی اسی طرح آپس میں کوآرڈینیشن جاری رکھیں گے ۔ فرنٹ لائن پر کام کرنیوالے طبی عملے کے تحفظ کو اولین ترجیح قرار دینا چاہیئے اور ساتھ ساتھ طبی عملے کیلئے حفاظتی سامان کی فراہمی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے ۔ صوبے میں کورونا ٹیسٹنگ لیبارٹریز کی استعداد کار کو روزانہ 2 ہزار تک بڑھانے کا کام کیا جا رہا ہے تاکہ ہم کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پوری طرح تیار ہوں۔ کورونا وائرس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا یہ قبل از وقت ہوگا کہ کب اور کیسے اس پر قابو پایا جا سکے گا ! لیکن امید ہے اس وائرس سے بچاؤ کی ویکسین بہت جلد مارکیٹ میں آ جائیگی لیکن اس مشکل وقت میں اسکا واحد علاج احتیاط ہے جو صرف و صرف قرنطینہ میں رہ کر ہی کیا جا سکتا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں