بول کہ لب آزاد ہیں تیرے…. تحریر رفعت انجم

تحریر : رفعت انجم
خواتین کے ساتھ ہراسگی کے واقعات کوئی نئی بات نہیں۔ گومل یونیورسٹی ڈئی آئی خان میں پیش آنے والا واقعہ سامنے آنے کے بعد ایک امید تھی کہ چلو کم از کم تعلیمی اداروں میں اب یہ گندگی کم جائےگی۔ لیکن کہتے ہیں نہ انسان کی ہر آرزو پوری ہونے کے لیے نہیں ہوتی۔ تو چلیں آپ کو ایک نیا واقعہ سناتے ہیں ۔ پشاور کی پہچان رکھنے والی تاریخی اسلامیہ کالج یونیورسٹی جہاں گولڈ میڈل کے حصول کے لیے وائس چانسلرصاحب نے طالبہ سے کھانے پر باہر جانے کی خواہش کا اظہار کیا اور ساتھ ایک لاکھ روپے بھی دینے کو کہا۔ جس پر خاتون نے پہلے تو ہر فورم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ لیکن جب شنوائی نہ ہوئی تو آخر انسداد رشوت ستانی کے ادارے سے رجوع کرنے پر مجبور ہوگئی۔

یہ بھی پڑھئے:    اپنی سوچ بدلو،معاشرہ خودبخود بدل جائیگا۔ کنول رضوان

زرا غور فرمائیں اس کہانی کی تفصیل پر جہاں پشاور کی تاریخی اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں ایک طالبہ کی ہراسمنٹ اورگولڈ میڈل کے حصول کے لیے ایک لاکھ روپے طلب کرنے کا انکشاف ہوا ہے متاثرہ طالبہ نے محکمہ اینٹی کرپشن کو شکایتی خط ارسال کیا ہے جبکہ وزیراعظم سیٹیزن پورٹل پر جنسی ہراسگی کی شکایت درج کی ہے اسلامیہ کالج کے پاک سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کی سابقہ طالبہ نے وزیراعلی کے مشیر برائے اینٹی کرپشن شفیع اللہ خان کے نام خط میں موقف اختیار کیا ہے کہ وہ اسلامیہ کالج میں 2014-16 سیشن میں ریگولر طالبہ تھی اور4 میں سے 3.84 جی پی اے حاصل کیا
خط میں طالبہ نے الزام لگایا ہے کہ جب وہ اس وقت کے چیئرمین ڈیپارٹمنٹ اور حالیہ وائس چانسلر کے پاس تھیسز جمع کروانے گئی تو انہوں نے ایک لاکھ روپے رشوت اور باہر ہوٹل میں ڈنر کرنے کا مطالبہ کیا لیکن میں نے انکار کیاتو چیئرمین ڈیپارٹمنٹ نے وائیوا میں جس بیرونی ممتحن کی ڈیوٹی لگائی وہ میرے سبجیکٹ کا نہیں تھابلکہ اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی اہلیت رکھتے تھے اور میرے وائیوا کو سمجھے بغیر مجھے کم نمبرز دیئے جس کے خلاف اس وقت کے وائس چانسلر کودرخواست دی جوانہوں نے ذاتی سنوائی کے لئے اپیلیٹ کمیٹی کو بھجوا دی
جس کے بعد میں اپیلیٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر تمام حقائق بتائے اور حقائق کی روشنی میں فیصلہ کیا گیا کہ درخواست گزارہ کو فرسٹ پوزیشن میرٹ سرٹیفیکیٹ اورگولڈمیڈل دیا جائے، خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اسلامیہ کالج کے شعبہ ا متحانات نے اپیلیٹ کمیٹی کی سفارشات اور اس وقت کے وائس چانسلر کی منظوری سے سیشن 2014-16کے لیے متاثرہ طالبہ کو گولڈ میڈل دینے کے کا آرڈر جاری کیااور 12 دسمبر 2017 کو اسلامیہ کالج کے کانووکیشن میں جامعہ کے چانسلر اور گورنر نے وائس چانسلر کی موجودگی میں انہیں گولڈ میڈل سے نوازا لیکن جب 10 مئی 2018 کو اوریجنل میرٹ سرٹیفکیٹ کے لیے اپلائی کیا تو 4 جولائی 2018 کو چیئرمین نے ان کے نام سے فرسٹ پوزیشن کاٹ کر اپنے ہینڈرائٹنگ میں سیکنڈ پوزیشن لکھ دی ،خط میں طالبہ نے اوریجنل میرٹ سرٹیفیکیٹ کی اجراءاور اسلامیہ کالج کے موجودہ وائس چانسلر خلاف ان کو ہراساں کرنے پر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے
متاثرہ طالبہ نے وزیراعظم سیٹیزن پورٹل پر بھی وائس چانسلر یونیورسٹی کے خلاف جنسی ہراسیگی کی شکایت درج کی ہے جوکہ 11اپریل2020 کو آئی جی پولیس خیبر پختونخوا کو کاروائی کیلئے بجھوائی جاچکی ہے

یہ بھی پڑھئے : میری چھٹی میری مرضٰ ۔ رفعت انجم

معاملے پر وائس چانسلر یونیورسٹی نے اپنے موقف میں طالبہ کے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ طالبہ کی کلاس میں دوسری پوزیشن تھی اوررزلٹ کے بعد انہوں نے مارکس بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا جو قانونی طور پر ان کا حق نہیں بنتا تھا، جبکہ طالبہ ان کی بیٹیوں جیسی ہے جنہیں ہراساں کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔طالبہ کا تمام ریکارڈ کنٹرولرامتحانات آفس میں موجود ہے ، اسلامیہ کالج میں کرپشن کیخلاف مہم کا آغاز کیا ہے لیکن کچھ عناصر اس میں روڑے اٹکا کر ان کے خلاف سارشیں کررہے ہیں بہت جلد اپنے وکلاءسے مشاور ت کے بعد ان کیخلاف پشاور ہائیوکورٹ سے رجوع کریں گے۔ یہ معاملہ سامنے آنے میں ایک بڑی بات یہ ہے کہ ایک طالبہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف بول اٹھی ہے ۔ اس انصاف ملے یا نہ ملے لیکن اس کی یہ آواز دیگر کئی طالبات کے لیے حوصلہ بڑھانے کا سبب بننے گی ۔
بول کے لب آزاد ہیں تیرے
نوٹ: تحریر میں طالبہ اور وائس چانسلر کا نام دانستہ طور پر تحریر نہیں کیا گیا



کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں 

12 تبصرے “بول کہ لب آزاد ہیں تیرے…. تحریر رفعت انجم

اپنا تبصرہ بھیجیں