بین الافغان ڈیڈلاک کے اصل حقائق ۔ ۔ ۔

دی خیبر ٹائمز سپیشل رپورٹ…
افغان طالبان نے قیدیوں کیلئے بھیجے ہوئے ٹیم کو کابل سے واپس کردیا، امارت اسلامی افغانستان کے سیاسی ونگ کے ترجمان سہیل شاہین نے بتایا ہے، کہ افغان حکومت جنگ کے مسلے کو ختم کرنا نہیں چاہتی، اور نہ ہی حکومت افغان شہریوں کے ساتھ مخلص ہے، 5 ہزار طالبان کے جنگی قیدیوں کی رہائی کامسلہ حل ہوگیاتھا، نہ صرف دوحہ امن معاہدے کے دوران دونوں جانب سے مجموعی طور 6 ہزار قیدیوں کے تبادلے پر بات ہوئی تھی، بلکہ دو بار دوحہ میں موجود امارت اسلامی افغانستان کی ٹیم اور کابل انتظامیہ کے آپسمیں ویڈیوز کانفرنس کے ذریعے بات ختم ہوئی تھی، ان ویڈیوز کانفرنسزمیں ہلال احمر ، دوحہ اور امریکی حکمومتیں بھی شامل تھے، جس میں 6 ہزار قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق ہوا تھا، امارت اسلامی افغانستان نے ہلال احمر کی ضمانت پر قیدیوں کی تصدیق کیلئے اپنا ٹیکنیکل ٹیم بھی کابل بھیج دیا تھا، دوحہ میں موجود امارت اسلامی افغانستان کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹویٹر پیغام میں کہاتھا، کہ افغان حکومت پھر اپنے کئے گئے وعدے سے مکر گیاہے، اور طالبان قیدیوں کی رہائی کے مسلے کو طول دے رہے ہیں،
29 فروری کو ہونے والے دوحہ امن معاہدے میں فیصلہ یہ ہوا تھا، جزبہ خیرسگالی کے تحت دونوں فریق یعنی افغان طالبان اور افغان حکومت ایک دوسرے کے جنگی قیدیوں کی رہائی کرینگے، پھرافغانستان میں مستقل قیام امن کیلئے 10مارچ سے بین الافغان امن مذاکرات شروع کرینگے،،، تاہم افغان حکو مت نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے اپنا موقف اختیار کرتے ہوئے کہاتھا، کہ بین الافغان امن مذاکرات کے دوران قیدیوں کی رہائی پربات ہوسکتی ہے، تاہم بعد میں متفق بھی ہوئے تھے، لیکن اب طالبان کی جانب سے قیدیوں کی فراہم کئے گئے فہرست میں افغان حکومت نے 15 طالبان قیدیوں کے نام پراعتراض کردیا، اور افغان حکومت نے 5 ہزار میں سے 15 ناموں کو نکالنے کا کہاہے، امارت اسلامی افغانستان کیلئے افغان حکومت کا یہ شرط منظور نہیں، جس کی وجہ سے افغان امن ایک بار پھر خواب تصور کیاجاتاہے، اس سلسے میں معروف صحافی رحیم اللہ یوسفزئی سے ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں، کہ، دوحہ امن معاہدے میں ہی کچھ خامیاں ہے، جس کی وجہ سے اب بین الافغان امن معاہدے میں وہ غلطیاں یا کوتاہیاں سراٹھائیگی، رحیم اللہ صاحب نے بتایا کہ ایک یہ کہ دوحہ امن معاہدے کے دوران کوئی ضمانتی نہیں ہے، جس میں کوئی تیسرا فریق بطور ضامن بیٹھانا بہت ضروری تھا، دوسری بات یہ کہ امریکا اور افغان طالبان کے مابین دوحہ امن معاہدے کیلئے مجموعی طور پر 11اجلاسیں ہوئی اور 18مہینے طویل وقت صرف ہوگیا، دوحہ امن معاہدے کے بعد فوری طور 10 روز بعد بین الافغان امن مذاکرات شروع کرنا بھی کوئی دانشمندی نہیں، اس کیلئے ٹھیک ٹھاک ٹائم فریم اور وقت کی ضرورت ہے،
افغانستان میں موجود ایک جنگی کمانڈر نےدی خیبر ٹائمز کو بتایا ہے، کہ اس کے سینیئرز اگرامریکہ کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر مذاکرات کرسکتے ہیں تو وہ افغان حکومت کے ساتھ بھی بیٹھ سکتے ہیں، اور امن کی بات کرسکتے ہیں، انہوں نے موجودہ حکومت کو مذید جنگ کرنے کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کی ٹیم کی افغان جنگ ہی میں ان کی زندگی ہے، ورنہ انہیں اندازہ ہےکہ انہیں صدارتی انتخابات میں افغان شہریوں نے کتنا ووٹ دیاہے؟ اور کتنے افغان ووٹرز نے اس انتخابات میں رائے کا استعمال کیاہے، ان کاکہنا تھا، کہ اگر جنگ ہی میں افغان صدر اشرف غنی کا فائدہ ہے اور وہ اپنے فائدے کیلئے طالبان سے جنگ کا خاتمہ نہیں کرسکتے، تو طالبان بھی آرام سے بیٹھنے والے نہیں،

اپنا تبصرہ بھیجیں