افغانستان میں بریف کیس افسران سے امن قائم نہ ہوسکا، اب پھر خانہ جنگی؟؟ خصوصی تحریر: ناصر داوڑ

افغانستان پر امریکی چڑھائی کے بعد 2005 میں عام انتخابات کا دور چل رہاتھا، میں اور میرا دوست، میرا بیوروچیف سید فخر کاکاخیل کابل میں تھے،ہم نے دیکھا کہ ایک بڑی تعداد میں وہ افغان لوگ جو در جوق کابل پہنچ رہے ہیں جو یورپ اور مشرق وسطی میں رہائش پذیر ہیں،حیرت کی بات تو یہ تھی کہ خاندان کا سربراہ خود ایک بریف کیس کے ہمراہ کابل میں سیٹ ہونے پہنچ گیا اور جہاں جہاں ہم نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ انکے بال بچ واپس نہیں آسکتے،چلو اس پر خوش ہواکہ افغانستان تو واپس آگئے اب اس ملک کی قسمت سنوارنے انکی پڑھی لکھی اولادیں بھی جلد یا بدیر آہی جائیں گی لیکن کئی سالوں بعد اندازہ ہوا کہ یہ تو صرف بریف کیس میں اپنا ضروری سامان لیکر آنے والے ہیں جو گڑشکرکے دنوں میں تو واپس آجاتے ہیں لیکن اپنی باہر پوری طرح سیٹل نئی نسل کو لو لگنے سے بھی ڈرتے ہیں ،ایک بریف کیس والا افغانی مسافر تو ہوسکتا ہے افغان نہیں۔۔۔وہ کیسے تو اس درد کو جان سکتا ہے جو مٹی کے آشفتہ سروں کو ہوتا ہے۔
بہر حال جب دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان ( امارت اسلامی افغانستان ) کے مابین امن مذاکرات کا دور شروع ہوا، تب مجھے احساس ہوا کہ مذاکرات مسافر خانے والوں سے نہیں،اس مٹی پر موجود قیادت سے ہوتے ہیں۔اتنی لمبی تمہید کا مقصد یہی تھا، کہ افغانستان کا حال اور مستقبل وہی لوگ بناسکتے ہیں، جو صرف افغانستان کو ہی اپنا گھر سمجھتے ہیں،
جس نے کسی دوسرے ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف نہ اٹھارکھا ہو!
وہی لوگ افغانستان کو بناسکتے ہیں، جن کے بچے اس دھرتی پر پلتے،بڑے ہوتے اور پھر پیوند خاک ہوجاتے ہیں،
افغانستان میں جاری جنگ کی تپش صرف وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں، جن کے گھروں سے صبح بچے سکول نکلتے ہیں، یا خود محنت مزدوری کیلئے گھر سے باہر سفر یا کرتے ہیں ،جو روز بڑے بچے اور خواتین کے جنازے اٹھا رہے ہوں،جن کے بچے باہر سکون کی نیند سورہے ہوں، جس کے ساتھ دیگر ممالک کے پاسپورٹ ہاتھوں میں ہوں،فرق پڑا ہے تو اتنا کہ پہلے جو بریف کیس خالی آتے تھے وہ واپسی پر نوٹوں سے بھرے لیجائے جاتے ہیں،افغانستان میں تعمیر نو کے نام پر افغان عوام کیلئے آنے والے روپے پیسے سے اپنا کل سنوارنے والے آج یا کل پھر سے اپنے پاسپورٹ لیکر کوئی نئی منزل ڈھونڈھنے نکل جائیں گے۔
افغانستان کی تعمیر نو میں عالمی دنیا نے جو اب تک ان 20 سالوں میں بہت امداد دی ہے،
یہاں کے حکمران کیوں افغانستان کو بنائیں ؟؟
افغانی ان کو تصور کیاجائے، جس کا جینا مرنا افغانستان میں اور افغانستان کیلئے ہو؟
اب وہی افسران اور حکمران جو امریکہ اور دیگر اتحادی افواج کےواپس جانے سے قبل ہی راہ فرار اختیار کررہے ہیں ۔
افغانستان کے زرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے افغانستان کو خیرباد کہنے سے قبل 35 منٹ کا ویڈیو پیغام ریکارڈ کیا ہے، جو شائد افغان میڈیا یا سوشل میڈیا پر ریلیز کیاجائے،
ادھر طالبان نے کابل پہنچنے سے پہلے عام معافی کا اعلان کیا ہے، مگر اشرف غنی شائد حالات اور طالبان کی باتوں پر یقین نہیں رکھتے انہیں افغانوں سے کوئی سروکار نہیں یا وہ اپنا بریف کیس بعد میں سنبھال نہ سکیں اس لئے اطلاعات کے مطابق وہ ہمسایہ ملک تاجکستان چلے گئے ہیں ، زرائع کے مطابق ڈاکٹر اشرف غنی کے قریبی حلقوں نے بھی انہیں بروقت اپنا بریف کیس تیار کرنے کا مشورہ دیا تھا اب خالی ہاتھ جانا تو افغان صدر کو زیب تو نہیں دیتا جو کل تک طالبان کی مزاحمت کا علم اٹھائے افغان عوام کو دلاسہ دے رہے تھے،ڈاکٹر صاحب کے چلے جانے کے بعد امارت اسلامی رہنما ملا عبدالغنی برادر نے کابل کے ارگ (صدارتی ) محل میں کرسی اقتدار سنبھال لی کیونکہ کرسی خالی مزہ نہیں کرتی۔
عبدالغنی برادر نے فوری طور پر سرکاری املاک کو نقصان نہ پہنچانے کیلئے احکامات جاری کئے ہیں۔
اب تجزیہ کاروں کا خیال ہے، کہ فی الوقت تو بغیر کسی مزاحمت طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا،
لیکن امریکہ کے چلے جانے کے بعد سوویت انخلاء والی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان کا سیاسی و اخلاقی حل افغانستان کے اندر ہی ہے۔
اس سے قبل روس کے خلاف جہاد کے بعد مختلف اقوام، وارلاڈز، قبائل اور اسلامی نظام کے نام پر طالبان جیسے کتنے گروہ بنے، یہاں سب سے خطرناک جنگ لسانی بنیاد پر لڑی گئی لیکن پھر بھی حل بریف کیس والوں کے پاس نہیں یہ تو طے ہوا!
طالبان ایک بار پھر ازبک، تاجک، دوستم ملیشیا وغیرہ کے ساتھ لڑینگے تاہم اس کا خدشہ ابھی کم ہے اگر طالبان تمام قومیتوں کو پورا پورا افغان سمجھتے ہوئے انکے حقوق کی حفاظت کر کے دکھا دیں۔
افغانستان سے امریکہ اپنے سارے مشن مکمل کرنے کے بعد نکل رہا ہے، ہمارے بعض مذہبی پسند حلقے امریکی اور اتحادی انخلا ان کا شکست بیان کرتے نظر آرہے ہیں، تاہم ان کے علم میں لانے کیلئے میں اتنا عرض کروں کہ امریکہ القائدہ کے پیچھے آیا تھا،امریکہ نے نہ صرف افغانستان میں القائدہ کے اہم رہنماؤں کو ہلاک کیا بلکہ افغانستان کے ساتھ ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی امریکہ نے ڈرون کا استعمال کرکے القائدہ کے ایک ایک ممبر کو ٹارگٹ کیا، آخر میں امریکہ نے اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد کرکے وہیں کہانی ختم کردی، جس کے پیچھے ماضی میں قبائلی پٹی کو جنگ کی بھٹی بنایا گیا،
اب امریکہ کی افغانستان میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی،امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدے کے بعد دوحہ قطر میں آخری اطلاعات تک بین الافغان امن مذاکرات جاری ہیں لیکن طالبان نے اس کے نتائج سے قبل ہی افغانستان پر انتہائی تیزی کے ساتھ قبضہ کر لیا،پہلی بار بغیر خونریزی کے ہونے والی فتوحات نے آخرکارطالبان کو کابل تک پہنچا دیا ہے، انتقال اقتدار تو بریف کیس والوں کے نکلتے ہی ہو گیا تھا اب تو صرف شاید اعلان ہونا باقی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں