دو ٹکے کے مشروم صحافی تحریر : اے وسیم خٹک

اے وسیم خٹک
بہت عرصہ سے ہم ایک آواز مضامین کی شکل میں بلند کررہے ہیں کہ خودرو پودوں کی طرح اگنے والے صحافیوں کا قلع قمع کردیا جائے۔ کوئی قانون اس بابت بھی بنایا جائے کہ جو گلی نکڑ میں صحافت کے اڈے جسم فروشی کے اڈوں کی طرح بن گئے ہیں جس کی آڑ میں مختلف قسم کے دھندے کئے جاتے ہیں۔اور یہ سب کچھ پولیس کی موجودگی میں ہورہا ہے بلکہ پولیس انہیں خود رابطے کرتے ہیں کہ آجائیں شکار پکڑا ہے ان سے انٹرویو کرلیں۔کیونکہ اس میں پولیس کی بھی تھوڑی بہت مشہوری ہوجاتی ہے ویسے مجرم اور ملزموں کو پکڑنا ان کے فرائض میں شامل ہے۔پھر بھی اپنی تشہیر کرانا انہیں مقصود ہوتا ہے۔ان مشروموں کی پیدائش ہی پولیس کے ہاتھوں ہے۔ جس نے معاشرے سے صحافی اور صحافت کا کردار ختم کردیا ہے۔اور یہ نئے نئے ناموں کے ساتھ میدان میں اتے ہیں۔ یہ مشروم گاوں کی سطح پر حامد میر اور جاوید چوہدری ہیں جو صرف اور صرف چند سو روپوں سےصحافت کی ڈگڈگی بجاتے ہیں۔ جنہوں نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ سوشل میڈیا میں فیس بک نے ان پر حسان کیا ہے کہ انہیں فت کی سہولت فراہم کی ہے جس سے یہ بھرپورفائدہ اٹھارہے ہیں۔ دو دوست ملے ایک کیمرہ مین تو دوسرا رپورٹر بن گیا۔ الیکٹرانکس کی دکان سے یا، موبائیل شاپ سے دو و تین سو کا مائیک لیا۔ آواز حق، آوز دوست، آواز سچ،. تلاش سچ،. صدائے بونیر،. صوابی پوسٹ، خیبر پشاور، سوات ٹائم اور اس جیسے ناموں کے ساتھ فیس بک پیج بنا لیا۔اور لو جی صحافت تین سو روپے سے شروع ہوگئی۔ سیاسی رہنماوں سے ملاقات ہوگئی جو علاقے کی سطح پر سیاست کرتے ہیں ان سےچائے پانی لیا۔ ان کو کوریج دی کیونکہ مین اسٹریم میڈیا پر انہیں کوئی کوریج کہاں دیتا ہے۔ تو یہی صحافت کے نام پر دھبہ ان کی اواز بن جاتے ہیں ۔ جسکو بعض اوقات یہی لوگ سپورٹ کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک سستا طریقہ ہوتا ہے ۔ عوام تک پہنچنے کا۔ دوسری جانب پولیس اور علاقے کے بڑے دکان دار اپنے سامان کی تشہیر کے لئے انہیں چند سو روپے دے دیتے ہیں ۔ جس سے ان کی دکانداری چل جاتی ہے۔ پھر یہ ہر اُس جگہ پائے جاتے ہیں جہاں پر میڈیا پہنچتی ہے بلکہ ان کے موبائیل کیمروں سے بھی آگے پڑے ہوتے ہیں ۔ اور ضلعی انتظامیہ بھی انہیں زیادہ توجہ دیتی ہے کیونکہ کہاں ایک منٹ کی نیوز اور کہاں دس پندرہ منٹ کی نیوز۔ تو فرق صاف ظاہر ہے۔
یہ صحافی باہر کے ممالک میں بسنے والوں کے لئے ان کے پسند کی چیزیں گاﺅں ، علاقے کے لوگوں کے انٹرویو کرتے ہیں ۔ جس سے انہیں اپنے وطن کی یاد آتی ہے وہ ان کے پیجز کو لائیک کرتے ہیں ۔ اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ ان صحافیوں کو غریبوں کی یاد آتی ہے اور کبھی کبھار یہ پھر دیار غیر میں بسے ہوئے تارکین وطن سے پیسوں کی ڈیمانڈ اس انداز سے کرتے ہیں کہ وہ مجبور ہوکر ان کی مدد پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ اوروہ پیسہ کتنا ہوتا ہے اس کے بارے میں یہ نہیں بتاتے یا پھر کبھی اپنے جیبوں کو بھر لیتے ہیں ۔
صحافت میں حسد بہت زیادہ ہے مگر ان کنویں کے مینڈکوں میں جو بغض کینہ اور حسد پایا جاتا ہے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ ایک دوسرے کے خلاف بھی سرگرم عمل ہوتے ہیں ۔ ایک دوسرے کا دکان بند کرنے کی یہ بھرپور کوشش کرتے ہیں ۔ یہ لوگ بھلا کے جہانگیر جانی اور شاہ رخ خان ہوتے ہیں ۔ شاید وہ بھی ان کے شاگردی میں آجائیں ۔ اگر ان کی ایکٹنگ دیکھ لی ۔ جس کی مثال ہم پشاور کے تہکال میں ہونے والے واقعے کی کوریج میں دیکھ سکتے ہیں ۔ پتہ نہیں کن کن ناموں سے لوگ آئے اپنی دکانداری کی۔ مجرم کو حوالات میں ٹکنے نہیں دیا ۔ ساتھ میں پولیس والے جس طرح کھڑے رہے وہ بھی ایک الگ موضوع ہے ۔ مجرم اور ملزم کو ان جیسے لوگ ہیرو بنادیتے ہیں ۔ خواتین کو اپنے کیمروں کے سامنے لاتے ہیں ۔ زیادہ تر موضوع ان کے سماجی ہوتے ہیں ۔ جو خواتین سے متعلق ہوتے ہیں ۔ جن کے خاندان کے ساتھ مسئلہ ہوتا ہے تو یہ دونوں خاندانوں کے ساتھ ملتے ہیں ۔ اور اپنی صحافت جھاڑتے ہیں ۔ تھوڑے سے لائیکس کے لئے یہ اوچھی حرکتیں کرتے ہیں ۔ اور اسی سے پیسے کماتے ہیں ۔ جب تھوڑے میچور ہوجاتے ہیں تو پھر یہ یوٹیوب چینل بناتے ہیں اور پھر یوٹیوب پر صحافت کا پرچار کرتے ہیں ۔ جہاں سے کچھ ڈالر یوٹیوب سے ملتے ہیں ۔ اور یوں ان کی دکانداری چلتی ہے ۔ مگر یہ کب تک چلے گا۔ اس کی روک تھام ضروری ہے اس کے لئے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ اور میڈیا کے کچھ دوستوں نے کمپین شروع کی ہے جس میں ،ثاقب الرحمان، شہاب الرحمان خٹک، عطاءاللہ، فہد شہزاد، شاہ زیب خٹک ، فیاض الرحمان سمیت دیگر دوست شامل ہیں ، جنہوں نے سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم پر اس آواز کو اعلی حکام تک پہنچانے کے لئے کوشش شروع کی ہے جس میں پشاور کے پولیس کی جانب سے ان کے خلاف کاروائی کی سفارش کی گئی ہے ۔کہ ان دو ٹکے کے مشر وم صحافیوں پر پورے صوبے اور ملک میں پابندی لگائی جائے جنہوں نے عوام کاجینا دوبھر کردیا ہے

2 تبصرے “دو ٹکے کے مشروم صحافی تحریر : اے وسیم خٹک

اپنا تبصرہ بھیجیں