ملکی استحکام امن سے وابستہ ہے جہاں امن ہوگا وہاں ترقی نظر آئے گی جہاں امن نہ ہو، انتشار کی فضا ہو، بد امنی و بے اطمینانی ہو وہاں ترقی محض ایک خواب ہے وہ جگہ کبھی بھی ترقی نہیں کرے گی جس میں امن نہ ہو۔ ترقی اور خوشحالی کے لیے امن ہی ضروری ہے ترقی کیلئے امن ایسے ہی ضروری ہے جیسے ایک خوشگوار زنگدی کیلئے انسان کی اپنی اچھی،تندرست صحت,یہی بات ہم نے نزدیک سے محسوس کی ہے اور حالات دیکھے ہیں ماضی بعید کی بات نہیں ہے محض تین چار سال قبل کی بات ہے دیکھا جائے تو شمالی وزیرستان میں کچھ عرصہ قبل بدامنی,ٹارگٹ کلنگ,اغواء برائے تاوان اور حملوں کا ذکر ہوتا تھا امن کے قیام کیلئے پاک فوج نے فیصلہ کیا اور شمالی وزیرستان میں بڑے پیمانے پر آپریشن ضرب عضب کے نام سے طویل آپریشن شروع کیا جس سے نہ صرف مقامی لوگوں کو تکلیف کا سامنا پڑا بلکہ پاک فوج کے آفیسرز سمیت سپاہیوں نے بھی دھرتی کی خاطر قربانیاں دیں آج انہی کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں امن آیا ہے لاتعداد ترقیاتی کام ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں اور لوگوں کو روزگار کے مواقع ملنا شروع ہوگئے ہیں اگر پھر بھی شمالی وزیرستان کے حالات کو گہری نظرسے دیکھا جائے تو آج بھی شمالی وزیرستان میں چھوٹے موٹے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن حالات میں وقت کے ساتھ بہتری آتی جائی گی۔اب بھی یہاں اتنا امن تو ضرور آیا ہے کہ اب شمالی وزیرستان میں کوئی خوف محسوس نہیں کرتا اور شمالی وزیرستان کی سیر کیلئے لوگ بلا خوف و خطر آتے رہتے ہیں۔ پرسوں ہم خود بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ شمالی وزیرستان کی تحصیل رزمک اور مکین گھومنے گئے ۔
پہلی بار شمالی وزیرستان جانے والے دوست کسی قدر ضرور خوف زدہ تھے کیوں کہ انہیں وہاں کے حالات کا کچھ اندازہ نہیں تھا لیکن وہاں پہنچتے پہنچتے ان کا خوف یکسر غائب ہو چکا تھا۔ ایک دوست نے اصرار کیا کہ صبح سویرے جائیں گے کیونکہ راستے میں سیکورٹی فورسز والے ہوں گے وہ راستے میں تنگ کریں گے انٹری اور تلاشی کے نام سے,سو ہم نے بھی ارادہ کیا کہ صبح سات بجے نکلیں گے جب ہم صبح سات بجے نکلے اور بکاخیل پہنچے تو بکاخیل کی حدود میں قائم چیک پوسٹ پر کھڑے فرنٹیرکور اور پولیس کے جوان نے اشارہ کیا ڈرائیور نے کار روکی اور سیکورٹی اہلکاروں نے پوچھا کہاں جارہے ہوں اورکہاں سے آئے ہوں ہم نے ان سے کہا کہ رزمک کی طرف گھومنے جانا چاہتے ہیں یقین مانیے بہت خوش اسلوبی سے باتیں کیں اور آگے جانے کی اجازت دی یہ ہر چیک پوسٹ پر اسی طرح رویہ اپنایا جاتا رہا راستے میں دوسلی سے قبل چیک پوسٹ آئی اور اس چیک پوسٹ پر پاک فوج کے جوان تعینات تھے چیک پوسٹ سے چند قدم فاصلے پر ڈرائیور نے گاڑی روکی یہاں رزمک,مکین اور شوال کیلئے انٹری ہوتی تھی ایک پولیس اہلکار آیا اوراس نے پوچھ گچھ کی اور کہا کہ سارے شناختی کارڈ دکھاکر انٹری کریں سو ہم ڈر گئے اور سوچھا کہ شائد غیر مقامی لوگوں کو اجازت نہیں دی جارہی ہوگی تو پولیس اہلکار سے کہا کہ بھائی رزمک جانا چاہتے ہیں میڈیا والے ہیں تو اس نے کہاکہ سامنے کھڑے پاک فو ج کے جوانوں سے بات کریں تو ان کے پاس نزدیک آیا اور کہاکہ بھائی ہم میڈیا والے ہیں رزمک کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو اس نے بہت اخلاق اور خوش اسلوبی سے کہاکہ گاڑی آگے کریں اور آپ کرسی پر تشریف رکھیں میں آگے صاحبان کے نوٹس میں بات لانا چاہتا ہوں اور ساتھ میں تین چار مرتبہ یہ بھی کہا کہ چائے پئیں گے لیکن ہم نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چائے پینے سے انکار کیا تین چار منٹ بعد آگے جانے کی اجازت مل گئی اور گاڑی کارنگ, نمبر آگے اور تعداد صاحبان کے نوٹس میں لایا۔
رزمک پہنچے تودوستوں نے کیڈٹ کالج کی سیر کی خواہش ظاہر کی تو ہم نے متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر حمزہ ظہور,محرر شیر بہادر,ایس ایچ او لوئی دارز کے ساتھ فون پر رابطہ کیا اورکہاکہ آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں کیڈٹ کالج گیٹ پہنچتے ہی ایک پولیس اہلکار ہمارے انتظار میں کھڑ ا تھا اس سے بات کی وہ ہمیں اسسٹنٹ کمشنر حمزہ ظہور کے پاس گورنر کاٹیج لے گئے اسسٹنٹ کمشنر حمزہ ظہور کے ساتھ چائے پینے اور انٹرویو سے فرصت کے بعد متعلقہ ایس ایچ او لوئی درا زسے ملے انہوں نے بھی بہت عزت دی اورحالات کے پیش نظر مکین تک پروٹوکول دیا مکین کی سیر کے بعد ایس ایچ او سے اجازت لی اور واپس بنوں کی طرف کار موڑ لی ان ساری باتوں کا مقصد یہ ہے کہ اب وہ شمالی وزیرستان نہیں ہے آپریشن ضرب عضب میں نقصانات تو ہوئے ہیں لیکن اب امن آیا ہے ترقیاتی کام ہوئے ہیں رزمک,مکین اور شوال جیسے حساس علاقوں میں کوئی نہیں جاسکتا تھا اب بلاخوف ہر ایک جاسکتا ہے رزمک,مکین اور شوال کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوسکتا ہے کمی اب بھی ہے کیونکہ دیگر سیاحتی مقامات میں سہولیات ہیں وہ ان علاقوں میں نہیں ہیں اگر حکومت اس طرف توجہ دے تو لوگ دیگر سیاحتی مقامات کا رخ نہیں کریں گے بلکہ رزمک، مکین اور شوال کا چکر لگائیں گے جس سے یہاں مقامی سیاحت کو فروغ ملے گا۔