پولیٹیکل ایجنٹ بادشاہ سے بابو تک کا سفر ۔۔۔۔۔ تحریر: عبدالصبور خٹک

تحریر: عبدالصبور خٹک

آپ پولیٹیکل ایجنٹ نہیں ہو آرام سے بیٹھو گورنر ہو, یہ مشہور فقرہ ایک قبائلی ملک نے گورنر ہاؤس پشاور میں ایک قبائلی جرگے کے دوران مرحوم گورنر افتخار حسین شاہ سے کہا تھا, فقرہ پڑھ کر آپ سمجھے ہونگے,, ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔۔۔۔ نہیں ، سوری! کئی دفعہ کا ذکر ہے یہاں پر ایک پولیٹیکل ایجنٹ ہوا کرتے تھے بلکہ پورے فاٹا میں کئی پولیٹکل ایجنٹ ہوا کرتے تھے ہر پولیٹکل ایجنٹ کی اپنی راجدھانی ہوا کرتی تھی جس کے وہ بادشاہ کہلایا کرتے تھے, ہر پولیٹکل ایجنٹ کا اپنا دربار ہوا کرتا تھا اور اس کے اپنے درباری ہوا کرتے تھے, پرانے زمانے میں بادشاہ کو خوش رکھنے کے لئے دربار میں ایک یا دو شاعر ضرور رکھے جاتے تھے وقت بدلا زمانہ بدلا اور شاعروں کی جگہ صحافیوں نے لے لی جن بادشاہیوں کا میں ذکر کر رہا ہوں ان کے دربار میں کچھ صحافی حضرات بھی ہوا کرتے تھے اور دیگر درباریوں جن کو ان وقتوں میں ملکان کہا جاتا تھا, ان میں وظیفے تقسیم کئے جاتے تھے اور وہ چند درباری صحافی بھی ماہانہ وظیفے وصول کرتے تھے کہانی بہت لمبی ہے, اب ذکر کرتے ہیں ان بادشاہوں کی بادشاہت کا جو آج کل آپ کو بابو نظر آتے ہیں, کسی زمانے میں جب یہ بادشاہ ہوا کرتے تھے تو ان کی تعیناتی افغانستان میں کھلنے والے سرحدی دروازے کی آمدن کے ساتھ ہوتی تھی مثلا خیبر ایجنسی کے بادشاہ کو بادشاہ بنے کے لئے تخت اسلام آباد کو خوش رکھنا ضروری تھا, یہ سونے کی کرسی حاصل کرنے کیلئے خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ کو اوپر والوں کو 20 سے 25 کروڑ دینے ہوتے تھے جبکہ ماہانہ پانچ سے دس کروڑ تو لازم تھے ہی, اس کے علاوہ گورنر ہاؤس کے کچن کا ماہانہ خرچہ، گورنر کے مہمانوں کیلئے تحائف بھی اس کے علاوہ تھے لیکن جب سے قبائلی اضلاع کا انضمام ہوا ہے یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے, پہلے پولیٹیکل ایجنٹ کے فنڈ کا آڈٹ نہیں ہوا کرتا تھا جس میں پولیٹیکل ایجنیٹ خوب کمائی کرتے تھے اور تنخواہ کے علاوہ بہت مراعات لیتے تھے, انضمام کے بعد سے پولیٹیکل ایجنٹ ڈپٹی کمشنر ہو گئے اور موجودہ حکومت نے جس طرح کفایت شعاری کی پالیسی اپنائی ہے اس کے حساب سے ڈپٹی کمشنر بھی کفایت شعار ہو گئے ترقیاتی کاموں اور دیگر اخراجات کے لئے چیف سیکرٹری سے منظوری لینی پڑتی ہے ضلعی انتظامیہ بھی تبدیل ہو گئی نظام کے ساتھ مگر قبائلی عوام بالخصوص ملکان انتظامیہ سے وہی امیدیں لگائے بیھٹے ہیں حالانکہ قبائلی انضمام کی سب سے زیادہ مخالفت بھی ان ہی ملکان نے کی تھی اب تو ڈپٹی کمشنر بابو ہوکر رہ گئے ہیں, پرانے وقتوں میں پولیٹیکل ایجنٹ سے عام قبائلی کا ملنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا جبکہ موجودہ وقت میں ڈپٹی کمشنر سے ملنا بہت آسان ہے اور عام قبائلی کو جو بھی مسئلہ ہوتا ہے ڈپٹی کمشنر اسی وقت احکامات جاری کرتے ہیں .. پرانے زمانے میں جب پولیٹیکل ایجنٹ کسی علاقے میں کسی تقریب میں شرکت کے لئے جاتے تھے تو ان کے ساتھ گاڑیوں کا بہت بڑا قافلہ ہوا کرتا تھا ابھی تو ڈپٹی کمشنر بغیر پروٹوکول کے کسی بھی تقریب میں شرکت کے لئے پہنچ جاتے ہیں موجودہ دور میں بہت سارے قبائل علاقوں میں قبائلوں کے سالہا سال کے مسئلے حل ہونا شروع ہو گئے ہیں اور ایک سسٹم کے تحت سب کچھ ہو رہا ہے .. انضمام کے بعد بھی قبائلی علاقوں میں بہت سے مسائل موجود ہیں جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے !!

اپنا تبصرہ بھیجیں