قبائلی اضلاع کو مزید ایک سال کیلئے ٹیکس سے استثنیٰ محض ایک ڈرامہ قرار دیدیا۔ قبائلی رہنماؤں کا اظہار خیال

تحریر: آفتاب مہمند

خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع کے سیاسی و سماجی رہنماؤں نے وفاقی حکومت کا گزشتہ روز بجٹ میں قبائلی اضلاع کو مزید ایک سال کیلئے ٹیکس سے استثنیٰ محض ایک ڈرامہ قرار دیدیا۔ قبائلی رہنماؤں کے مطابق یہ تو بعد کی باتیں ہیں پہلے تو وفاق اور سابق صوبائی حکومت یہ جواب دیں کہ 2018 میں جب فاٹا کا 25 ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام ہو رہا تھا تو اس وقت قبائلی اضلاع کیلئے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ کی مد میں ملک کے تمام صوبے اور وفاق 10 سال کیلئے قبائلی اضلاع کیلئے سالانہ 100 ارب روپے کا پیکج دیں گے تاکہ 1893 میں وجود میں آنے والی فاٹا کا آج تک تمام تر محرومیاں دور ہوں۔ کہاں گیا وہ پیکج؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری برائے قبائلی اضلاع و سماجی رہنما جہانگریز مہمند کہتے ہیں کہ گزشتہ روز اگر وفاق نے مزید ایک سال کیلئے قبائلی اضلاع کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے تو اسکے لئے پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور قبائلی اضلاع کے دیگر کئی سٹیک ہولڈرز نے باقاعدہ جدوجہد کی ہے۔ ایک سال کا استثنیٰ تو کچھ بھی نہیں جب قبائلی علاقوں کا خیبر پختونخوا میں انضمام ہو رہا تھا تو اس وقت سابق وفاقی وزیر سرتاج عزیر کی سربراہی میں ” فاٹا ریفارمز کمیٹی” جو بنی تھی۔ موجودہ وفاقی حکومت، خصوصا پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق وزیراعلی خیبر پختونخوا محمود خان اب قبائلی عوام کو یہ جواب دیں کہ فاٹا ریفارمز کمیٹی کے اصلاحات پر کتنا عمل درآمد ہو چکا ہے۔ اس وقت یہ فیصلہ ہوا تھا کہ وفاقی حکومت اور تمام صوبے قبائلی علاقوں کی ترقی چاہے وہ تعلیم ہو، انفراسٹرکچر ہو، صحت کا شعبہ، پانی، بجلی، سڑکیں، روزگار سمیت ہر طرح کے ترقیاتی کام و وہاں کی حقیقی معنوں میں بحالی پر مزکورہ پیسہ 10 سال تک خرچ ہوتا رہیگا تاکہ وہاں کی ڈیڑھ کروڑ لگ بھگ کی آبادی کا تاریخی محرومیاں دور ہو جائیں لیکن بدقسمتی سے انضمام کے فوری بعد 2018 میں مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت وجود میں آئی انہوں نے نہ ایک روپیہ جاری کیا اور قبائلی اضلاع کا اپنا جو سالانہ اے ڈی پی یا خصوصی فنڈز ہوتا ہے تو خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی سابق صوبائی حکومت وہ پیسہ بھی صوبے کے دیگر بندوبستی علاقوں میں منتقل کرتے رہے۔

جہانگریز مہمند کہتے ہیں جہاں استثنیٰ کا تعلق ہے تو اس وقت قبائلی اضلاع کو 5 سال کیلئے جسکی مدت 31 جولائی 2023 کو ختم ہو رہی ہے کو ہر طرح کے ٹیکسز سے مستثنیٰ قرار دیا گیا یہ بہت اچھا ایک فیصلہ تھا۔ استثنیٰ سے مراد کہ قبائلی اضلاع کو جو بھی درآمد ہوگا یا وہاں سے برآمدات ہونگی اسی طرح وہاں جو مشینری وغیرہ جو زیر استعمال ہے پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔ اب ایسے میں جب مزید ایک سال کیلئے استثنیٰ میں توسیع کی گئی ہے یہ قبائلی عوام کو کسی صورت قابل قبول نہیں کیونکہ کہاں ہے وہ ترقیاتی کام یا اب تک 500 ارب روپے تک ملنے والا پیسہ جس پر قبائلی اضلاع کو حقیقی معنوں میں ایک ترقی یافتہ زون بنایا جاتا لہذا اسی ایک سال کے دوران وہاں کی سیاسی و سماجی قیادت قبائلی عوام سے ملکر اپنے حقوق کے لئے حقیقی معنوں میں لڑنے کا وقت آچکا۔

جہانگریز مہمند نے مزید بتایا کہ اس بات کی تو نہ صرف ملکی 23 کروڑ کی لگ بھگ آبادی بلکہ پوری دنیا گواہ ہے اور قبائلی علاقوں کے تاریخی قربانیوں کی متعرف بھی ہے۔ مسلسل دہشتگردی کا شکار اور پسماندہ رہ جانیوالے قبائلی علاقوں کیلئے حالیہ وفاقی بجٹ میں 57 ارب روپے کا اعلان کردہ پیکج وہاں کے عوام کیساتھ محض ایک مذاق ہے۔ فاٹا انضمام سے قبل جو سالانہ اربوں کا گرانٹ ہوتا تھا وہ بھی تو بیورکریسی ہڑپ کر لیا کرتی تھی لیکن اب بالکل بھی ایسا نہیں ہوگا۔ سابق فاٹا کی تاریخی محرومیوں کا ازالہ کرانے کیلئے بہت جلد ایک مضبوط اور موثر حکمت عملی بنائی جائے گی۔

خیبر پختونخوا کے سنئیر قانون دان اور سرتاج عزیز کی سربراہی میں اس وقت کی بننے والی یعنی “فاٹا ریفارمز کمیٹی” کے ممبر اعجاز مہمند کہتے ہیں کہ حکومتیں اب قبائلی عوام کے ساتھ مزید مذاق نہیں کر سکے گی۔ قبائلی اضلاع کے عوام کو اپنی تاریخی محرومیوں کی بخوبی سمجھ ہے۔ یہ کیا ہے کہ ایف سی آر کا نظام ختم کرکے پولیٹیکل ایجنٹ کی بجائے اب ڈی سی ہوگا۔ صرف الفاظ یا ناموں کی تبدیلی، وہاں عدالتی نظام، پولیسنگ یا دیگر نام نہاد اقدامات سے تو قبائلی علاقے حقیقی معنوں میں بحال نہیں ہو سکتے۔

اعجاز مہمند کہتے ہیں کہ وہ، مرحوم معروف قانون عبدالطیف آفریدی ودیگر بعض قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے قانون دان خود اس کمیٹی کے ممبران تھے۔ فاٹا انضمام سے قبل انہوں نے 25 نکاتی اصلاحات پر ایک تفصیلی ڈرافٹ تیار کیا تھا جو نہ صرف سرتاج عزیز کے حوالے کیا گیاتھا بلکہ وہ ڈرافٹ سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے بھی حوالے کیا تھا۔ چونکہ فاٹا کا انضمام صوبہ خیبر پختونخوا میں ہونا تھا لہذا ایک ایک اصلاحات پر سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کیساتھ ملاقات ہوئی تھی۔ ان میں بہت سے اچھے تجاویز بھی شامل تھے۔ تفصیلی ڈسکشن کا مقصد بھی یہی تھا کہ انضمام سے قبل اور بعد ازاں فوری طور پر لینے والے اقدامات سے انکو آگاہ کیا جانا تھا لیکن جب انضمام ہوا پھر عملا دیکھا کہ آج تک تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب ایسے میں استثنیٰ کا ایک ڈرامہ رچا کر قبائلی عوام کو تو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔

اعجاز مہمند کہتے ہیں کہ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کونسی پالیسی ہے کہ ملک کیلئے تاریخی قربانیاں بھی ہم دے رہے ہیں اور سب سے پسماندہ اور ناخواندہ بھی ہم قبائل۔ استثنیٰ کا اعلان تو تب کرنا چاہئیے جب فاٹا اصلاحات پر عمل درآمد تو ہونا۔ حکومت کا کیا خیال ہے کہ ایک سال بعد وہ وہاں ٹیکسز لاگوں کریں گے۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا انکو عوام کا شدید ردعمل دیکھ کر پتا چلے گا۔ لہذا ایسی ڈرامہ بازیاں کرانے کی بجائے حکومت وہاں کیلئے اعلان کردہ اعلانات، اصلاحات، ترقی و بحالی، سالانہ 100 ارب روپے کا گرانٹ جیسے حقائق قبائلی عوام کے سامنے رکھ دیں۔ زندگی کے دیگر شعبے چھوڑ صرف اگر وہاں کی تعلیم کی بات کیجائے تو کیوں 50 سے 60 فیصد بچیاں تعلیم کی حصول چھوڑ گئیں؟ ظاہری بات ہے قبائلی اضلاع کی تعلیمی ادارے تو پڑھائی کے قابل بھی نہیں۔

اعجاز مہمند بتاتے ہیں کہ تعلیم، صحت سمیت وہ کونسا ایسا شعبہ ہے جسمیں گزشتہ 5 سالوں کے دوران کوئی ترقی کا کام کیا ہوا ہو۔ آج تک سب سے زیادہ خطرات بھی ہم مول لے رہے ہیں اور حالت یہ ہے کہ ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والے قبائلی اضلاع کے تمام تر تجارتی اہم پوائنٹس بند ہیں حالانکہ سابق فاٹا اور موجودہ قبائلی اضلاع افغانستان کے راستے جنوبی ایشیاء اور سنٹرل ایشیاء کے مابین ماضی کیطرح آج بھی ایک اہم تجارتی گزر گاہ ہے اور یقینا پاکستان کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے جہاں لاکھوں قبائلی عوام بھی باروزگار بن جائیں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہم آج بھی ملکی دیگر علاقوں کے عوام سے کم از کم 20 سال پیچھے ہیں۔ 27 ہزار کلومیٹر رقبے پر واقع قبائلی پٹی کو جب تک کمرشل نہیں بنایا جاتا تب تک بجٹ والے اعلانات بے سود رہیں گے۔ بدقسمتی سے قبائلی علاقوں کے عوامی نمائندگان بھی خیبرپختونخوا اسمبلی، خصوصاً پارلیمنٹ و سنیٹ میں انتہائی مایوس کن کردار ادا کرتے آرہے ہیں اب ہمارے وسائل پر دیگر علاقوں کے لوگ قابض ہوتے رہیں گے اور ہم محض استثنیٰ جیسے اعلانات سنتے رہیں گے۔ قیام کے پاکستان کے بعد فاٹا میں جتنا کرپشن ہوا ہے اگر وہ پیسے بھی ریکور کئے جائیں تو وہاں کی بحالی یا ترقی کیلئے وہ بھی کافی ہیں۔ ہم فاٹا انضمام کے قطعا مخالف نہیں سب سے زیادہ محب وطن پاکستانی ہیں لیکن حالیہ اعلانات جیسے ڈراموں سے کچھ بھی نہیں بنتا جب تک وہاں کی حقیقی بحالی کیلئے حتمی اور فیصلہ کن اقدامات نہ ہو۔ اعجاز مہمند نے وفاق کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہوش کے ناخن لیں جیساکہ تاریخی محرومیوں کے خلاف قبائلی اضلاع ہی سے ایک موثر آواز اٹھنے والی ہے۔ فوری اقدامات نہ کرانے کی صورت میں پھر تمام تر ذمہ داری وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت ہی پر آن پڑیگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں