تھائی لینڈ جانے سے دو دن قبل اپنی بیگم کیساتھ بیٹھا ہوا تھا اور گپ شپ لگا رہا تھا بیگم نے پوچھا کہ سچ مچ تم جارہے ہوں یعنی میری بیوی کو ابھی تک یقین نہیں تھا کہ میں باہر جارہا ہوں جب میں نے کہا کہ بالکل اب تک سب کچھ کنفرم ہوگیا ہے تو میرے جواب سے اس کے چہرے پر اداسی چھا گئی پھر پوچھا واپس کب آؤ گے تو میں نے جواب دیا کہ دس دن گزاروں گا پھر آؤنگا اس کے چہرے پر کچھ خوشی دیکھنے کو ملی کہ میں واپس آؤنگا پھر بیگم کو تنگ کرنے کیلئے مزیدکہا کہ کوشش کرونگا کہ کسی انگریز لڑکی سے شادی کروں کیونکہ وہ تو سفید ہوتی ہے اور انہیں میک اپ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی دوسرے وہ جیولری کے چکر میں بھی نہیں ہوتی سو خرچہ بھی نہیں کرناپڑے گا جس پر بیگم نے فوری جواب دیا کہ بالکل کرو میری طرف سے اجازت ہے لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ میری جیسی تمھیں بالکل نہیں ملے گی جس پر میں نے اسے تنگ کرنے کیلئے کہا کہ تمھاری جیسی دوسری سے شادی بھی نہیں کرنی – میں نے اسے چھیڑنے کیلئے مزید کہا کہ اسلام نے مجھے چار کی اجازت دی ہے تو بیگم نے دوبارہ جواب دیا کہ بالکل چار شادیاں کرو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن جیسے میرے حقوق ہونگے ویسے دوسروں کو بھی دو گے تب کرنا ۔ویسے بات بیگم نے پتے کی کہی تھی لیکن اس کے سامنے تو اقرار نہیں کرسکتا تھا – ویسے عجیب بات ہے کہ میری بیگم چار بچوں کی ماں بن گئی ہیں لیکن ابھی تک اس کو مجھ پر اعتبار کرنا نہیں آیا
اسی شام کو والدہ کیساتھ بیٹھ کر گپ شپ کررہا تھا کہ والدہ جو کہ والد کی وفات کے بعد بہت کمزور ہوگئی تھی شوگر اور بلڈ پریشر نے والدہ کو چلنے پھرنے سے بھی کسی حد تک محدود کردیا ہے گپ شپ کرتے ہوئے یکدم رونے لگی مجھے کہا کہ بیٹے خیال کرنا تمھارے تو بچے ہیں ایسا نہ ہو کہ باہر کے چکر میں اپنے گھر کو بھول جاؤ میں نے جواب دیا کہ نہیں امی کبھی ایسا سوچنا بھی مت بس میرے لئے دعا کرنا کیونکہ میرا تو کوئی اور نہیں – میں تھائی لینڈ جانے کی تیاریوں میں لگا ہوا تھا اور بہنوں نے فون کیا کہ کب جا رہے ہوں چونکہ اپنے گھر میں میرا پہلا بیرونی سفر تھا اس لئے میرے ساتھ میرے گھر والے اور رشتہ دار بھی کسی حد تک ایکسائٹڈ تھے جس دن شام کی فلائٹ تھی اس دن بہنوں نے فون کیا کہ کہیں نکلنا نہیں ہم ملنے آرہے ہیں –
دنیا میں ماں کے بعد بہن کا بڑا مقام ہے یہ وہ رشتہ ہے جس کی قدر ہم لوگ نہیں کرتے لیکن جس گھر میں بہنیں نہ ہوں اس کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں بھائیوں کی چھوٹی سے خوشی میں خوش ہونیوالی بہنیں بھائی کیلئے بہت محبت رکھتی ہیں بھائیوں کی محبت میں بہت ظلم برداشت کرتی ہیں یہ اللہ تعالٰی کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہیں بھائیوں کیلئے بہنوں کی بڑے دل ہوتے ہیں دل میں بہت خوش ہوا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ تعالی نے بہنیں تو دی ہیں جو میری خوشی میں شریک ہونے کیلئے آرہی ہیں
جس دن فلائٹ تھی اس دن میں دفتر کیلئے صبح سات بجے روانہ ہوا دفتر جیسے ہی پہنچ گیا اس وقت بیٹھا تھا کہ اطلاع آئی کہ دھماکہ ہوا ہے چونکہ ہمارا دفتر پشاور صدر میں ہے اور صدر کی نزدیک دھماکے کی آواز سنائی گئی تھی پہلی اطلاع آئی کہ غربی تھانے کو نشانہ بنایا گیا ہے وہاں تک ہمارے دفتر سے تقریبا ایک کلومیٹر کا فاصلہ بنتا ہے میں فوری طور پر بھاگ کر وہاں پہنچا لیکن کچھ نہیں تھا ایک دوست نے فون پر اطلاع دی کہ نوتھیہ میں سکول کے باہر دھماکہ ہوا ہے وہاں پہنچ جاؤ وہاں سے بھاگتے ہوئے نوتھیہ بازار پہنچا جہاں پر ایدھی کی گاڑی موقع پر جانے کیلئے جارہی تھی چونکہ ان لوگوں سے رابطہ پہلے سے تھا اس لئے ایدھی کی ایمبولینس میں بیٹھ گیا کہ جلدی پہنچ جاؤں کیونکہ کیمرہ مین نے بعد میں پہنچنا تھا موقع پر پہچ گیا تو اطلاع آئی کہ چونکہ آپ نے نکل جانا ہے اس لئے آپ یہاں سے ہسپتال نکل جائیں دوسرا رپورٹر وہاں پہنچ رہا ہے اسی ایمبولینس میں جس میں زخمی بچوں کو لے جایا جارہا تھا بچوں کیساتھ ان کے والدین بیٹھے تھے معصوم چار سال سے لیکر سات سال تک کے چار بچے تھے جو دھماکے کے باعث زخمی ہوگئے تھے انکی آنکھوں میں آنسو تھے اور والدین ان کے پریشان تھے وہ کہہ رہے تھے کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں سکول کے سامنے بھی دھماکہ ہوتا ہے نامعلوم افراد نے سکول کے سامنے گدھا گاڑ ی میں بم نصب کیا تھا جو پھٹ گیا تھا اور اس سے متعدد بچے زخمی ہوگئے تھے ان میں دو بچے بھی جاں بحق ہوگئے تھے ہسپتال پہنچا وہاں کی کارروائی لائیو ٹی وی پر دی چونکہ ٹی وی پر زیادہ تر لائیو کوریج ہوتی ہیں اس لئے ہسپتال کی صورتحال سے ناظرین کو آگاہ کیا اسی دوران ڈائیو کو فون کیا اور اپنے لئے اسلا م آباد کیلئے بکنگ کی پھر دفتر فون کیا کہ کسی او ر کو بھیج دو کیونکہ میں جارہا ہوں دوسرا دوست ہسپتال کوریج کیلئے آگیا پھر وہاں سے بینک آگیا جہاں میرا اکائونٹ تھا کہ روپوں کی جگہ ڈالر لے لونگا – بینک پہنچا جہاں پر متعلقہ کائونٹر سے ڈالر لینے کیلئے رابطہ کیا تو اس نے بڑی رعونت سے جوا ب دیا کہ یہ ایکسچینج نہیں ہے اور میرے تیس ہزار روپے میرے منہ پر پھینک دئیے مجھے ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ہاں تم ڈالر جمع کرسکتے ہو لیکن ہم تمھیں نہیں دے سکتے
مجھے بڑی شرمندگی محسوس ہوئی کہ ٹھیک ہے کہ تیس ہزار روپے کی تمھارے لئے کوئی وقعت نہیں ہوگی لیکن میرے ساتھ روا رکھے جانے والے روئیے نے بہت دلبرداشتہ کیا میں وہاں پر موجود تھا کہ ایک موٹی پیٹ والا شخص وہاں آیا اسی بندے نے جس نے میرے ساتھ بدتمیزی سے بات کی تھی اس کے سامنے اٹھ گیا اس کیلئے چائے کا کہا اور پھر گپ شپ کے دوران اسے میرے سامنے ڈالروں کا بنڈل دے دیا اورمیں اپنے آپ کو گالیاں دیتاہوا نکل آیا کہ ہم جیسے لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں جن کے پاس زیادہ ہے ان کی یہاں پر عزت ہوتی ہے
دلبرداشتہ ہو کر اسی بینک سے نکل کر نزدیکی ایکسچینج چلا گیا جہاں پر تیس ہزار روپے دئیے تو اس صاحب نے 350 ڈالر دئیے اس وقت عجیب سا لگ رہا تھا کہ میرے تیس ہزار روپے کی وقعت یہی ہے وہاں سے پیدل پریس کلب تک روانہ ہوا کہ دوست سے کیمرہ لے لونگا اس کو فون کیا کہ کیمرہ پہنچا دو لیکن ایک بات جو ہر ایک کوئی مانے گا کہ جب آپ کی ضرورت ہوتی ہے تو چھوٹے سے چھوٹا کام بھی نہیں ہوپاتا سو پریس کلب میں دوست کا انتظار کرنے کے باوجود کیمرہ نہیں آیا اور دوست میں آرہا ہوں کی گردان کرتا رہا دو بج گئے لیکن دوست نہیں آیا پھر مجھے غصہ آیا کہ تھائی لینڈ میں کیمرہ لے جانا ضروری تو نہیں پھر گھر سے بھی فون آرہے تھے کہ بہنیں آئی ہیں تمھار ے انتظار میں بیٹھی ہیں جلد گھر پہنچ جاؤ –
راستے میں گھر جاتے ہوئے خیال آیا کہ میرا بیگ تو خراب ہوا ہے اب کیا کروں وہاں سے ہشتنگری پہنچا جہاں پر افغانستان سے آنیوالے ملٹری بیگ اور دوسرا سامان مل رہا تھا وہاں پر امریکی فوج کا بیگ لیا اور گھر پہنچا اس دن تین بجے کے قریب دوپہر کا کھانا کھایا بہنوں اور بچوں کیساتھ کھانے کا اپنا مزا آیا صحافت کا میدان بھی عجیب سا ہے کبھی گھر والوں کیساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھایا تھا صبح ناشتے کا موقع تو ملتا ہے و ہ بھی بچوں کیساتھ` ہمارے گھر میں داجی گل (و الد) کی عادت تھی کہ اکیلے کھانا کھاتے تھے باقی سب لوگ ایک ہی جگہ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں یہی عادت والد کی مجھ اور میرے والد کو بھی ورثے میں ملی ہیں گھر کی خواتین اور بچے الگ کھانا کھاتے ہیں اور ہم الگ جس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں بھائی صحافت سے وابستہ ہے اور کھانے کا کوئی وقت مقرر نہیں اس لئے جب بھی گھر آئے تو کھانا کھا لیا سو اس دن کھانے کا بہت مزہ آیا- شیو کیا اورگھر سے نکلا تو اس وقت بہنوں سے قرآن شریف کا ختم میرے لئے کیا والدہ سے گلے ملا بچوں کو پیار کیا والدہ نے قرآن سر پر رکھا کہ بیٹا قرآن کے سائے میں نکلو گھر سے نکلتے وقت بیگم کو دیکھا جو گھروالوں سے دور دیوار سے لگ کر کھڑی تھی اور مجھے دیکھ رہی تھی جب میں نے اسے دیکھا تو اس نے منہ موڑ لیا لیکن اس کی آنکھوں میں آنسوئوں نے مجھے اداس کردیا گھر سے نکلنے کے بعد رکشے میں بیٹھ گیا کہ ڈائیو ٹرمینل پہنچ جاؤ ںاتنا سست رکشہ ڈرائیور تھا میں ڈر رہا تھا کہ کہیں لیٹ نہ ہو جاؤں لیکن شکر ہے کہ اس نے بروقت ٹرمینل تک پہنچا دیا –