ضمیر کا صحافی کے نام دوسرا خط ۔ تحریر: مسرت اللہ جان

یہ میرا دوسرا خط ہے جو میں تمھیں لکھ رہا ہوں کیونکہ تمھارے بڑبولے پن اور پشتو زبان کے مثل کے مصدق ” دا خلے پرتوغاخ دے نشتہ ” یعنی تمھارے منہ اتنا کھلا ہوا کہ اس پر زیپ تو کیا ناڑا بھی کام نہیں کرتا لیکن میں تمھارا ضمیر ہوں تمھیں جگانے کی بھرپور کوشش کرونگا .
آخر تمھیں کس بات کا زعم ہے. صرف لکھتے ہوں اور لکھتے بھی خوشامد ہو .اسی خوشامد کی وجہ سے تمھیں لوگ ظاہری طور پر پسند کرتے ہیں لیکن تمھارے پیٹ پیچھے وہ باتیں کرتے ہیں کہ اگر تم سن لو توشرم سے مر جائو لیکن مجال ہے تم پر کوئی اثر ہوتا ہے .کبھی کبھار میں تمھارا ضمیر ہوتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتا ہوں کہ آخر بے شرمی اور بے غیرتی کی بھی کوئی حد ہوتی ہیں اور اس معاملے میں کبھی کبھار تم آگے چلے جاتے ہو کہ بس…
تمھارے پیٹ پیچھے لوگ کہتے ہیں کہ اس کے جسم پر ” گدھے کا چرم ” ہے اور شرم ، حیا اور غیرت نامی چیزاس پر اثر نہیں کرتی-
مسٹر صحافی!
مسٹر اس لئے لکھ رہا ہوں کہ تمھیں انگریزی زبان کی زیادہ سمجھ ہے اردو اور پشتو اور ہندکو کی سمجھ نہیں آتی.
کچھ باتیں میں تمھیں یاد دلاتا ہوں لیکن تم اپنے دل میں اسے چھپا لیتے ہو- اس کا مقصد تمھاری تضحیک ہر گز نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ لوگ اس بات کو نہیں بھولے اس طرح میں بھی نہیں بھولا. کیونکہ میں تمھارا ضمیر ہوں اور مجھے تمھارے اندر کا پتہ ہے.
کیا تمھیں وہ دن یاد نہیں جب تم نے لاہور میں ایک خاتو ن کے پیچھے باتیں کی تھیں حالانکہ میں نے تمھیں اس وقت بھی سمجھایا تھا کہ اپنے منہ کو کنٹرول کرو لیکن تم تو لڑکی دیکھ کر اپنے آپے میں نہیں رہتے اور منہ سے رال بہنا شروع ہو جاتی ہیں-کیا دوسروں کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں اتنی نیچ ہوتی ہیں- میں تمھیں یہ بات اس لئے یاد کرا رہا ہوں کہ تم سنبھل جائو – لاہور میں اپنے ہی کمرے میں تمھیں کتنی مار پڑی تھی – منہ ، چہرہ تک مار کی وجہ سے سوجا ہوا تھا اور پھر کسی بھی صحافی نے تمھارا ساتھ دینے کی کوشش نہیں کی کیونکہ تمھارے ایک ساتھی کو مفت میں مار پڑی تھی-اور پھر معمولی رقم لیکر تم نے آنکھیں بند کرلی حالانکہ میں نے اس وقت بھی تمھیں غیرت دلانے کی کوشش کی تھی کہ اب تو سنبھل جائو – پیسہ، رقم ہر شخص کی کمزوری ہے لیکن یہ کمزوری اتنی بھی سر پر چڑھانی نہیں چاہئیے کہ غیرت ، عزت سب کی نیلامی ہو.

مسٹر صحافی !
تمھارا جس ادارے سے تعلق ہے اسے تو عرف عام میں ” ایویں پالے فالتو” کہا جاتا ہے اور اسی کی بل بو تے پر تم روز بروز ” سانڈ ” بنتے جارہے ہو –
میں تمھارا ضمیر ہوں اور تمھارا چہرہ تمھارے اپنے ہی آئینے میں دکھانے کی کوشش کرتا ہوںتاکہ تمھیں کچھ احساس ہو جائے کہ تم کر کیا رہے ہو اور اپنی قلم کا استعمال صحیح کرو .اسے صاحب لوگوں کیلئے شلوار میں ناڑے کی جگہ استعمال مت کرو .حالانکہ جب تم جھوٹ پر جھوٹ لگتے ہو تو میں تمھیں کتنے کچوکے لگاتا ہو ں کہ بس کرو . بس کرو لیکن تم میں احساس نام کی کوئی چیز ہی نہیں.
اسی احساس نہ ہونے کی وجہ سے تم نہ صرف اپنے آپ کو بیچ دیتے ہو بلکہ اپنے دیگر ساتھی صحافیوں کو بھی کھڑے کھڑ ے بیچ دیتے ہو – جس کا بعض اوقات پتہ چل جاتا ہے اور پھر منتیں ترلے کرنے لگتے ہو.
مجھے تو اس دن بہت زیادہ شرم آئی تھی جب پروگرام کی کوریج کیلئے صحافیوں کے لنچ کے نام پر تم نے خطیر رقم لیکر جیب میں ڈال لئے تھے اور سب پر رعب جمانے کیلئے کہہ دیا تھا کہ مجھے کم رقم ملی ہیں اوریہ سب کچھ ہڑپ کرنے کیلئے تم نے سب کے سامنے اعلان کیا تھا .مجھے اس وقت تم سے گھن آرہی تھی اور میں نے تمھیں اس وقت بھی کہا تھا کہ سب کچھ جیب میں رکھ لو اور ایک پیسہ بھی کسی کو مت دو اور سب کچھ جیب میں رکھ لو لیکن جھوٹ مت بولو..لیکن تم نہیں مانے. اور پھر کیا ہوا. تمھیں یاد ہے..
نہیں میں تمھیں یاد دلانے کی کوشش کرتا ہوںجب تمھارے ہی ایک صحافی ساتھی اس بندے سے رابطہ کیا جس نے پیسے دئیے تھے تو پتہ چلا کہ جو رقم تم ظاہر کررہے تھے وہ نہیں تھی اور تم اس شخص کو ” پیسوں کا چور” ثابت کرنا چاہ رہے تھے لیکن اس ساتھی کی پوچھنے کی عادت نے تمھیں چور ثابت کردیا-یہ الگ بات کہ اس صاحب نے شکایت لگائی تھی اور تمھاری متعلقہ ڈیپارٹمنٹ میں کلاس لگی تھی . کہ ایک تو تمھیں کھلاتے پھلاتے ہیں اوپر سے ہمیں چور بناتے ہو.اور پھر تم نے مخصوص لوگوں کو کچھ رقم دیکرسوال پوچھنے والے صحافی کو “اپنی بہن کا خصم”کہہ دیا تھا ..
میں نے تمھیں اس وقت بھی بطور ضمیر تمھیں کہا تھا کہ جو ہونا تھا ہو گیا اب آگے مت کرو لیکن تم صحافی اپنے آپ کو آسمان سے اتری ہوئی چیز سمجھتے ہو.ضمیر کی بات بھی خاطر میں نہیں لاتے.حالانکہ میں تمھارا اپنا ہی ضمیر ہو ں اور تمھیں یہ یا د دلانا چاہتا ہوں کہ زیادہ جھوٹ بولنے اور اڑنے سے نقصان تمھارا ہی ہے.
یہ دوسرا خط میں تمھاری عادتوں کی وجہ سے لکھ رہا ہوں کہ تم اپنے آپ کو کنٹرول کرو اورغیبت اور بہتان بھی چھوڑ دو.. میرا بطور ضمیر تیسرا خط بھی بہت آنے والا ہے.جس میں تم پر جو کیس عدالت میں چل رہا ہے اور تم اس بارے میں دنیا کو جھوٹ بول کر بتاتے ہو. خیر..واقعات بہت سارے ہیں. مجھے پتہ ہے کہ تمھیں میری باتیں بہت بری لگ رہی ہیں لیکن .. کیا کرو ں .. میری جو ڈیوٹی ہے وہ میں نے بھی پوری کرنی ہے.
اس لئے مسٹر صحافی.. اب جاگ جائو …

تمھارا

ضمیر

یہ بھی ملاحظہ کیجئے : ضمیر کا خط نمبر ایک 

پہلے خط کا جواب: یہاں کلک کرکے ملاحظہ کرسکتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں