پشاورکوروناکےنشانےپرکیوں؟؟؟ تحریر: فدا عدیل

پشاور نہ صرف پورے خیبر پختونخوا، نوضم شدہ قبائلی علاقوں اور کشمیریوں کے لئے بلکہ افغان پناہ گزینوں کے لئے بھی “ماں” کا درجہ رکھتا ہے، اس شہر نے اپنی آغوش میں ہر نئے آنے والے کو سمویا، اس شہر کی ممتا اس قدر معصوم اور سادہ ہے کہ بعض اوقات اس کی گود میں پلنے والے ہی اس کی گود اجاڑنے کا کام کرتے رہے ہیں، اس شہر نے دہشت گردوں کو بھی اپنی گود میں جگہ دی اور بارود سے پناہ لینے والوں کو بھی۔ آج کل پشاور نے کورونا وائرس کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے جس نے پہلے اس آغوش میں جگہ بنائی اور اب ماں دھرتی کے اس خوب صورت شہر کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کورونا کے مصدقہ کیسز اور ہلاکتوں کے حساب سے اب پشاور ملک بھر کا حساس ترین شہر بن چکا ہے، ان سطور کو زیر قلم لانے تک پشاور میں کورونا کیسز کی تعداد 1197 ہے، یہاں کورونا سے جاں بحق والوں کی تعداد 111 تک جاپہنچی ہے، گویا دہشت گردی کے زمانے میں ٹاپ کا لہولہان شہر اب کورونا سے ہونے والی اموات کے لحاظ سے بھی ٹاپ پر آگیا ہے، پشاور شہر سے اب تک کورونا وائرس سے جاں بحق افراد میں 40 کے لگ بھگ خواتین بھی شامل ہیں. پشاور کے کئی علاقوں میں ایک ایک مریض کی موت واقع ہوئی ہے تو کئی ایک علاقے ایسے بھی ہیں جہاں دو سے زائد اموات بھی رپورٹ ہورہی ہیں. ان میں یکہ توت، گلبہار, کوہاٹ روڈ، نوتھیہ اور پھندو روڈ کے علاقے شامل ہیں، گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پشاور میں کورونا وائرس سے 53 اموات رپورٹ کی گئی ہیں جن میں سب سے زیادہ یکم مئی کو ایک ہی روز شہر بھر میں 10 افراد کورونا وائرس سے جاں بحق ہوئے، اگلے روز 9 افراد پشاور میں دم توڑ گئے تو اتوار کو 6 افراد کورونا کے باعث چل بسے۔

یہ بھی پڑھئے :   کورونا کا طبی عملے پر حملہ، کہاں ہیں محمود خان؟ فداعدیل

پشاور کے تینوں بڑے ہسپتالوں لیڈی ریڈنگ ہسپتال, خیبر ٹیچنگ ہسپتال اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں مارچ کے آخری ہفتے سے لیکر 3 مئی کی مدت کے دوران علاج کے لئے کورونا وارڈ میں داخل مریضوں میں 144 افراد جاں بحق ہوئے ہیں. جن میں سب سے زیادہ اموات لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں رپورٹ کی گئی ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ ایل آر ایچ میں کورونا وائرس سے 100 کے لگ بھگ افراد زندگی کی بازی ہار گئے ان میں 71 مریضوں کا تعلق پشاور کے مختلف علاقوں سے تھا جبکہ مرنے والوں میں 29 خواتین بھی تھیں. اسی طرح دوسرے نمبر پر حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کورونا وائرس سے 25 اموات رپورٹ کی گئیں. ان میں 20 مرنے والے افراد کا تعلق پشاور سے تھا جبکہ ہسپتال میں کورونا وائرس کا شکار 6 خواتین بھی جاں بحق ہوئیں. خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں کورونا وائرس کے متاثرہ مریضوں میں 16افراد جاں بحق ہوئے جن میں 10 افراد کا تعلق پشاور سے تھا جبکہ ایک خاتون بھی کورونا سے زندگی کی بازی ہار گئی. جاں بحق ہونے والے افراد کا تعلق پشاور کے مختلف علاقوں خان مست کالونی، چن آغا کالونی، ترناب، علی زئی، امین کالونی جی ٹی روڈ، بخشو پل چارسدہ روڈ، سعید آباد باچا خان چوک، نوتھیہ، دین بہار کالونی چارسدہ روڈ، وزیر باغ، گلاب آباد، رشید گڑھی، کاکشال، رنگ روڈ، شیخ کلے، پاور ہاوس کالونی، چمکنی، زرگر آباد، پولیس کالونی، گلبہار، یکہ توت، درمنگی، ورسک روڈ، آکاخیل، ہشتنگری, ناگمان، پیر بالا، شیخ آباد، ادریس آباد، حاجی کیمپ، کینٹ پشاور اور اندورن شہر گنج کے علاقے شامل ہیں. ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت خیبر پختونخوا میں صرف کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے لحاظ سے بھی پشاور کے اعداد و شمار سب سے زیادہ ہیں. سرکاری رپورٹ کے مطابق ضلع پشاور میں اب تک 1197 کورونا وائرس کے مصدقہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، الفاظ کو سپرد قلم کرنے تک ایک ہی دن میں صرف پشاور سے 131 نئے کیسز رپورٹ کئے گئے، پشاور میں مشتبہ کیسز کی تعداد کہیں زیادہ ہے. حکومت نے صوبے میں ٹیسٹنگ سہولیات اگرچہ بڑھا دی ہیں تاہم اب بھی پشاور میں ٹیسٹ کم کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد رپورٹ کردہ کیسز سے کئی گنا زیادہ ہوسکتی ہے. آپ پشاور کے شہری علاقوں کے بازاروں قصہ خوانی، خیبر بازار، شعبہ بازار، پیپل منڈی، بازار مسگراں، شاہین بازار، مینا بازار، نمک منڈی، کینٹ کے علاقوں نوتھیہ، صدر، باڑہ روڈ یا پھر یونیورسٹی روڈ اور پوش علاقے حیات آباد جاکر دیکھیں تو لگتا ہے کہ شہریوں میں کافی آگہی ہے اور جزوی لاک ڈاون پر پورا عمل کیا جارہا ہے لیکن جب آپ ان علاقوں سے ذرا دور جائیں تو لگتا ہے خیر خیریت ہے،

یہ بھی پڑھئے : خیبرپختونخواکےایک وزیرکو بچانےکی کوشش ؟؟؟ فدا عدیل

لوگوں کی غیرسنجیدگی دیکھیں تو کورونا وائرس کو بھی خود پر رحم آجاتا ہے کہ جو کام اس وائرس نے اکیلے کرنا تھا، اب جہالت بھی اس کا ہاتھ بٹارہی ہے۔ جن علاقوں کو کورونا نے متاثر کیا ہے وہاں تشویشناک بات یہ ہے کہ وائرس باہر سے کم اور لوکل کنٹیکٹس کے ذریعے زیادہ پھیلا، یعنی اب عمرہ زائرین، ایران سے آنے والے زائرین، تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد یا کسی بھی قسم کی ٹریول ہسٹری رکھنے والوں کو ہی مورد الزام قرار نہیں دیا جا سکتا، اب مقامی شہری ہی کورونا وائرس کو پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ پشاور سے باہر کے اضلاع پر نظر دوڑائیں تو لاک ڈائون نے انتظامیہ کے لئے محض سونے کی چڑیا کا درجہ حاصل کررکھا ہے، جتنا کاروباری طبقے کا نقصان ہوا ہے اس کے تقریباً نصف کے برابر انتظامیہ جرمانوں کی مد میں وصول کرچکی ہے جس کا حساب بھی کوئی نہیں۔ پشاور میں سب سے کیسز اور بڑھتی ہوئی اموات نے جہاں شعبہ صحت کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگائے ہیں وہیں ٹیسٹنگ کے عمل پر بھروسے کا بھی فقدان پایا جاتا ہے، طبی عملہ اپنے تئیں بھرپور جدوجہد میں مصروف ہے، ہسپتالوں نے بھی اپنے وسائل کے مطابق انتظامات کر رکھے ہیں لیکن کب تک؟ کورونا کیسز کی رفتار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پشاور کے بڑے ہسپتالوں میں گنجائش کم پڑ جائے گی، چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے الگ ہسپتال دنوں اور ہفتوں میں قائم کئے گئے، ہمارے ہاں تو ایسا کوئی انتظام بھی نہیں کیا جاسکتا، جو ہسپتال ہمیں نظر آتے ہیں وہاں انتظامات بھی نظر آتے ہیں لیکن جو ہسپتال ہمیں نظر نہیں آتے وہاں ہمیں انتظام بھی نظر نہیں آتا، ایسے عنقا کی طرح منظر سے غائب ہسپتالوں میں چونکہ سول پرندوں کے پر جلتے ہیں اس لئے کورونا وائرس بھی وہاں جانے سے گھبراتا ہے۔
اہل پشاور کو ہی سوچنا ہوگا کہ جن ہسپتالوں میں 150 شہیدوں کی میتیں رکھنے کے لئے بستر دستیاب نہ ہوں اور لاشیں فرش پر بکھری ہوئی نظر آئیں، ایسے ہسپتالوں میں فرش تو دستیاب ہیں لیکن لاشوں کے قریب جانے والا کوئی نہ ہو تو سوچیں خدانخواستہ کیا قیامت کا منظر ہوگا۔ پشاور سرفہرست کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے خود سے پوچھیں، آپ زیادہ نہ سوچیں بس عید کی تیاری کریں، نئے کپڑوں جوتوں کا بندوبست جاری رکھیں اور روزے رکھیں



ادارے دی خیبرٹائمز کے نمائندے 24 گھنٹے آن لائن رہتے ہیں، کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں 

9 تبصرے “پشاورکوروناکےنشانےپرکیوں؟؟؟ تحریر: فدا عدیل

اپنا تبصرہ بھیجیں