دیکھئے زندگی کی رفتار ۔۔۔ تحریر عامرخان

عامرخان

2019 جیسے ہی اختتام کے قریب پہنچنے لگا تو میں اور میری طرح اور بہت سے لوگ نئے سال کی آمد کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے ۔مختلف پروگرام بننا شروع ہوگئےکہ ادھر جانا ہے وہاں جانا ہے یہ کرنا ہے وہ کرنا ہے ۔انسٹاگرام فیس بک ٹویٹر پر واٹس ایپ پر پروگراموں کے متعلق سٹیٹس ڈالے جارہے تھے ۔یوں لگ رہا تھا کہ ہر طرف امن وشانتی ہے ہر لمحہ کسی خوبصورت فلم کا منظر پیش کر رہا تھا ۔یوں لگتا تھا کہ زندگی دوڑ نہیں رہی بلکہ اڑ رہی ہو۔ مثلا جس کے پاس سائیکل تھی وہ موٹر سائیکل کا سوچ رہا تھا اور جس کے پاس موٹر سائیکل تھی وہ گاڑی کا سوچ رہا تھا۔ غرض یہ کہ ہر ایک کامیابیوں کے زینے چڑھ رہا تھا کہیں دور دور کسی کے وہم میں گمان میں بھی نہیں تھا کہ بساط زندگی کی سیڑھی اترنی بھی ہے ۔ہم نے مٹی کی چادر بھی اوڑھنی ہے ۔یقین کریں کہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ مجھ سمیت دنیا کے اربوں انسانوں میں سے کسی کے چشم تصور نے بھی یہ گمان نہیں کیا ہوگا کہ تمام دنیا ایک دم سے رکے گی۔ دور کہیں پیرس کی گلیوں میں پیار کے نشے میں مست دو پنچھی ایک دوسرے سے جدا ہو کر تنہائی میں ایک دوسرے کے دلوں کی دھڑکن پر غور نہیں بلکہ ایک دوسرے کی کھانسی کو مشکوک نظروں سے دیکھیں گے ۔ اٹلی میں وینس کے پانیوں پر تیرتی کشتیوں کے ملاح اچانک یوں غائب ہو جائیں گے جیسے اس شہر پرکسی آسیب نے سایہ کر لیا ہو.

یہ بھی پڑھئے:  بول کہ لب آزاد ہیں تیرے…. تحریر رفعت انجم

میری طرح ہر مسلمان نے کبھی بھی مکہ کے فرش کو دیکھا نہیں تھا کیونکہ ہمیشہ لاکھوں طواف کرنے والوں کے پاؤں کے نیچے پوشیدہ رہتا تھا لیکن پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب اس شہر رحمت میں ہو کا عالم تھا۔ اسی طرح برازیل اور آسٹریلیا کے وہ ساحل جو ہر وقت آدھے سے زیادہ نیم برہنہ جسموں والی تھرکتی پریوں کی آماجگاہ تھے آج وہاں تنہائی کا یہ عالم ہے کہ انسان کو اپنی سانس سے بھی وحشت ہونے لگی ہے۔

یہ سب قدرت کی اس کروٹ کے مرہون منت ہے جسکو آج زمانہ کرونا وائرس کہتا ہے۔ دراصل قدرت نے اپنی طاقت کا میرے خیال سے بالکل معمولی سا مظاہرہ کیا ہے کہ ہم جتنی بھی ترقی کے زینے چڑھ لیں نظام قدرت کی اس فصیل کو کبھی پار نہیں کرسکتے جو اللہ نے ہمارے ارد گرد بنائی ہے لیکن انسان ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے جہاں وہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی ترقی کی بدولت کارخانہ قدرت کی قید سے رہائی پا گیا ہے اور وہ خود اب طاقت کا منبہ ہے ۔اس مرض کرونا وائرس کے آغاز کے دنوں میں ہر کوئی یہی سمجھ رہا تھا کہ آج اگر اس کی باری ہے تو کل میری یا پھر میرے کسی قریبی عزیز کا نمبر آنے والا ہے۔ سو اسی خوف میں ہر انسان کو اپنا آپ دنیا کا کمزور انسان لگنے لگا ہے۔ہر ایک کو اپنی بے بسی اور اپنی کسمپرسی نظر آ رہی ہے۔ ہر کوئی دیکھ رہا تھا کہ وہ فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہونے والا ہے لیکن پھر آہستہ آہستہ ہر کسی پر غفلت کا غلبہ ہونے لگا ۔آج لاک ڈاؤن میں نرمی کے دنوں میں دیکھیں کہ انسانوں کا ایک سیلاب بڑی بڑی مارکیٹوں کا رخ کرتا ہوا آپ کو دکھائی دے گا۔ ہر کوئی پھر سے لوٹ مار کرنے کے لیے پر تول رہا ہے حکومت نے جب غریب آدمی کے لئے مدد کا اعلان کیا تو یقین کریں کہ میں نے مدد کے لیے کھڑے لوگوں میں بے شمار ایسے لوگوں کو دیکھا جو کسی حقدار کا حق مار کر امداد کی رقم بٹور رہے تھے ۔پھر سے ہر کونے سے ننھی کلیوں کو مسلنے کی خبریں گردش کرنے لگی ہیں۔ پھر سے جسموں کی قیمتیں لگنے لگی ہیں پھر سے طاقت کے حصول کے لیے انسان کے خون سے ہولی کھیلی جانے لگی ہے ۔شاید پھر سے ہم بدقسمتی سے اس طرف جارہے ہیں جہاں پر ہم خدا کے غیظ و غضب کو دعوت دے رہے ہیں۔ آج جب میں بڑی بڑی مارکیٹوں کے آگے رش دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو چند دن پہلے تک اپنی غربت کا ماتم کرکے حقداروں کا حق اپنی تجوریوں میں بھر رہے تھے۔ کب ہم کو عقل آئے گی یقین کریں کہ ہم سب خدا کو مانتے ہیں لیکن اس سے بھی مضبوط یقین سے مان لیں کہ ہم خدا کی نہیں مانتے جب تک ہمارے اندر یہ تضاد رہے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہم کبھی بھی ان عذابوں سے جان چھڑا سکیں گے اس وبا کے دنوں میں میری طرح آپ کو بھی بہت سے ایسے لوگ ملے ہوں گے جو یہ کہہ رہے تھے کہ کرونا کی سب بڑی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کسی مردہ انسان کو کوئی ٹھیک طریقے سے نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی عام میت کی طرح اس کے فرائض ادا کیے جاسکتے ہیں۔ یقین کریں کہ مجھے ایسے لوگوں پر بیحد افسوس ہوا یعنی کہ اس دنیا میں آخری وقت تک کے سفر کے بارے میں تو پریشان ہیں لیکن بدبخت لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اس کے بعد کے عمل کے لیے ان کی کیا تیاری ہے ۔مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنی پیدائش اور اپنی زندگی سے لیکر دفنائے جانے تک کی تو فکر ہے لیکن سب سے بڑی حقیقت اور نہ ختم ہونے والی زندگی کے بارے میں کوئی سوچ بچار ہی نہیں کی استغفراللہ ہم کیسے خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ واقعی رب ذوالجلال نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ انسان سراسر خسارے میں ہے۔ آئیے اس گزرے رمضان المبارک میں اپنی ٹوٹی پھوٹی عبادات کے صدقے رب العالمین کے سامنے مجرموں کوتاہ گروں کی طرح کھڑے ہو کر دوسروں کے لیے بعد میں اور پہلے اپنے لیے معافی مانگیں اور رب کائنات سے سب سے پہلے اپنی اصلاح کی بھیک مانگیں کیونکہ شاید اگلے رمضان میں ہم سے بہت سے لوگ صرف ماضی کا قصہ بن چکے ہوں گے کیونکہ ہم ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ شاید ہمارے بغیر دنیا نہیں چلے گی۔ لیکن یہاں تو اللہ کی قربت نصیب کرنے والوں سے لیکر اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق لوگوں تک مٹی اوڑھ چکے ہیں۔ لیکن یہ دنیا نہیں رکی اور نہ ہی رکے گی جب تک وہ رب نہیں چاہے گا۔

ایک نظر یہاں دیکھئے :  پشاورکوروناکےنشانےپرکیوں؟؟؟ تحریر: فدا عدیل


کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ادارہ دی خیبرٹائمز

اپنا تبصرہ بھیجیں