ہم لوگ……. تحریر: ضیاء اللّٰہ ہمدرد


تحریر: ضیاء اللّٰہ ہمدرد

پشاور میں ایک معصوم بچی کو صحن میں شور کرنے پر چچا نے قتل کردیا۔ لاہور میں ایک معصوم بچی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی ویڈیو وائرل ہوئی اور بندہ پکڑا گیا۔ اس سے قبل موٹر سائیکل پر ایک شخص کی ایسی حرکات کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ مانسہرہ میں ایک معصوم بچہ مدرسے کے اندر بار بار زیادتی کا نشانہ بننے کی وجہ سے دم توڑ گیا اور ایک سیاسی مولوی اسے بچانے کے لئے والدین کو بلیک میل کرتا رہا۔ پچھلے پانچ سال کے دوران سترہ ہزار سے زائد معصوم بچیوں کو درندگی کے بعد قتل کردیا گیا۔ لاہور میں یتیم خانے کی معصوم بچیوں کو درندگی کا نشانے بنانے کا سکینڈل منظرِ عام پر آنے کے بعد سانحے کے گواہ کو قتل کردیا گیا جبکہ افشاں لطیف سوشل میڈیا پر ویڈیو بنا بنا کر حکومت اور عدلیہ سے انصاف مانگ رہی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں اسلامیات کا پروفیسر خاتون کو نوکری کی لالچ دے کر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ سوات میں ایک مہینے کے اندر چھ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا۔

جہاں حکومت، علما، اساتذہ، اور معاشرے کے لوگوں کو قانون سازی، شعور، آگہی اور مزہبی تعلیم اور اخلاقیات کے ذریعے معصوم بچوں اور بچیوں کو انصاف اور تحفظ فراہم کرنے کے لئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے، وہاں سوشل میڈیا پر یہ بحث جاری ہے کہ اسلام نے عورتوں کو بہترین حقوق دئے، ہمارے معاشرے میں عورت کو بہت ہی اعلیٰ مقام حاصل ہے، ہمارے اپنے روایات ہیں، عورت مارچ کا مقصد فحاشی پھیلانا ہے، وبائیں عورتوں کی بے حیائی کی وجہ سے پھیل رہی ہیں۔ مطلب جو جنس یا صنف بذاتِ خود درندگی اور ظلم کا شکار ہے، اس پر ہی سارا الزام ڈال کر اور اسے ہی قصور وار قرار دے کر پوری قوم احساسِ ندامت کی بجائے ایک عجیب سی خوش فہمی، غلط فہمی اور احساسِ برتری میں مبتلا ہے۔

جو معاشرہ عورت کو مرضی کی شادی کرنے پر غیرت کے نام پر قتل کردیتا ہے، جائیداد میں حصہ مانگنے پر قتل کردیتا ہے یا اس سے تعلق توڑ دیتا ہے، شک کر نے پر قتل کردیتاہے، محبت کا علم ہونے پر قتل کردیتا ہے، وہاں استحصال کو جواز فراہم کرنے کے لئے معاشرے کی اخلاقیات، روایات، ثقافت، رسومات یہاں تک کہ مذہب کو بھی ڈھال بنا کر ان کو ہی موردِ الزام ٹہرا دیتا ہے۔ ہم لوگوں کی منافقت کا لیول بھی اتنا اعلیٰ ہے کہ جاہلیت کے زمانے کے منافق بھی واپس زندہ کردئے جائیں تو منافقت چھوڑ کر کافر بن جائیں۔ اگر کوئی عورت اس معاملے پر بات کرے تو سارے لوگ اس عورت کو ہی ٹارگٹ کریں۔ اس کی زندگی اجیرن کردیں۔ اگر کوئی مرد اس معاملے پر بات کرے، تو سب اس کےپیچھے پڑ جائیں۔ جس معاشرے میں شادی مشکل کردی جائے، محبت چھپ کر کرنی پڑے، قتل اور بدمعاشی پر لوگ فخر کریں، وہ معاشرہ انسانوں کا معاشرہ نہیں ہوسکتا، چاہے وہ مذہب کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرے، ثقافت اور روایات کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرے یا پھر کسی اور چیز کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرے۔ ہم لوگ اپنی چالبازیوں میں اس قدر آگے چلے گئے ہیں کہ اب ہمارے سات آٹھ سال کی عمر کے معصوم بچے بچیاں بھی محفوظ نہیں رہیں۔
تحریر: ضیاء اللّٰہ ہمدرد

اپنا تبصرہ بھیجیں