پشاور کے صحافیوں پر حملے تحریر: فدا عدیل

آپ صحافی ہیں تو آپ کی کسی بات سے، کسی تحریر سے یا کسی چھبتے سوال سے کسی کو رنجش ہوسکتی ہے، یہ رنجش دشمنی میں بدل سکتی ہے اور یہ دشمنی جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے، اہل صحافت کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے، آپ نے کسی کے مزاج کے خلاف کچھ تحریر کیا یا منہ سے ناپسندیدہ الفاظ ادا کئے بس کچھ عناصر آپ کے سامنے مختلف صورتوں میں آکھڑے ہوں گے، پہلے گذارا کرنے کا کہا جائے گا، پھر دھمکایا جائے گا اور اگر آپ ان عناصر کے مزاج کے برعکس باز نہیں آئیں گے تو آپ پر باقاعدہ حملے شروع ہوجائیں گے۔۔۔
عید الفطر سے قبل پشاور کے دو سینئر صحافیوں پر حملے کئے گئے، اتنے دن گزرنے کے باوجود دونوں کیسز میں پیش رفت کا پتہ نہیں چلا، پہلا حملہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ بطور بیورو چیف پشاور وابستہ کہنہ مشق صحافی جمشید باغوان پر کیا گیا،

Picture Courtesy by Twitter.com

دفتر سے گھر جاتے وقت سینٹرل جیل کے سامنے دو موٹر سائیکلوں پر سوار حملہ آوروں نے جمشید باغوان کی گاڑی کو روکا، موٹر سائیکل سے گاڑی ٹکرانے کا بہانہ بناکر تکرار کا آغاز کیا اور پھر منصوبے کے مطابق حملہ اور ہوگئے، جمشید باغوان نے متعلقہ پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کرائی مگر تاحال کسی پیش رفت کے بارے میں جمشید باغوان کو نہیں بتایا گیا، جمشید باغوان پر یہ کوئی پہلا حملہ نہیں تھا، کئی سال قبل ان کی رہائش گاہ کو بھی بم کا نشانہ بنانے اور ان کی گاڑی کا تعاقب کرکے حراساں کرنے کی کوشش کی جاچکی ہے۔ جمشید باغوان اپنے زمانے کے منجھے ہوئے رپورٹر رہے ہیں، اب بھی کبھی کبھار اندر کی ایسی خبریں لاتے ہیں کہ خبر خود اپنے نکلنے پہ حیران رہ جاتی ہے۔ آج کل کے نشریاتی اور مطبوعاتی اداروں کے ذریعے بہت کچھ کہا اور لکھا نہیں جاسکتا۔ جمشید باغوان نے حالیہ دنوں میں ایسی کوئی رپورٹ بھی نہیں چھاپی جو کسی فرد یا ادارے کے مزاج نازک پر گراں گزری ہو۔ ہاں البتہ ٹویٹر جیسے سماجی رابطے کے ذرائع دل کی بھڑاس نکالنے اور تھوڑا بہت سچ بولنے کا اچھا میدان ہیں، جمشید باغوان ٹویٹر پر کافی ایکٹیو ہیں، خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان کی کوئی ایک یا دو سطریں کسی کی موٹی عقل پر بھاری گزری ہوں گی لیکن تادم تحریر اس امر کے بارے میں پتہ نہیں چل سکا کہ جمشید باغوان سے کون، کس بات کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے :   پشاورکوروناکےنشانےپرکیوں؟؟؟ تحریر: فدا عدیل

دوسرا حملہ ہمارے پیارے سینئر صحافی اعجاز احمد پر کیا گیا، اعجاز احمد بھی ڈیوٹی کے بعد گھر جارہے تھے کہ راستے میں نامعلوم افراد نے ان کو روکا۔۔۔ “آپ کیا کام کرتے ہیں؟” کے الفاظ کے ساتھ تعارف مانگا اور جب مطلوبہ حدف کی تصدیق ہوگئی تو سر پر ایسی کاری ضربیں لگائیں کہ بردارماعجاز احمد کو ٹانکے لگوانے پڑے۔۔۔

Picture Courtesy by Facebook.com

اعجاز احمد سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے ساتھ بطور سپورٹس رپورٹر وابستہ ہیں، ایک ان کا ادارہ دوسرا ان کی بیٹ۔۔۔۔ دونوں کو دیکھا جائے تو کہیں دور دور تک بھی اس امکان کے ساتھ خود کو متفق نہیں کرپایا کہ اعجاز احمد نے کہیں کسی شخص یا ادارے کے مزاج کے ساتھ چھیڑخانی کی ہوگی۔ سپورٹس رپورٹنگ میں بھلا آپ کیسے کسی کی “دل آزاری” کرسکتے ہیں اور جب آپ سرکاری ادارے کے ساتھ وابستہ ہوں تو ایسی کوئی رپورٹ بھی نہیں چھاپ سکتے جو “غداری” کے زمرے میں آتی ہو، ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعجاز احمد کی کسی کے ساتھ کیا دشمنی ہوسکتی ہے؟ گنگریالے سنہری بالوں والے اعجاز احمد زندہ دل انسان ہیں، ایسے لوگ محفلوں کی جان ہوتے ہیں، اعجاز احمد حق گو انسان ہیں، کہنے پر آئیں تو پیٹھ پیچھے نہیں سامنے کہنے کے قائل ہیں، ان کی بعض سچی باتیں سن کر سامنے والے کے کان بھی ان کے بالوں کی طرح گولڈن ہوجاتے ہیں، کھیلوں کے فروغ اور کھلاڑیوں کی پروموشن کرنے والا، سٹیج سیکرٹری کے طور پر ہر ایک کو محبت سے نوازنے والا بھلا کسی کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟
دونوں سینئر صحافیوں پر ہونے والے حملوں نے کئی سوالات چھوڑے ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر یہاں بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ چند انفرادی رابطوں کے علاوہ حکومتی سطح پر بھی ان دونوں واقعات کے حوالے سے وہ سنجیدگی نہیں دکھائی دی جو نظر آنی چاہئے تھی۔

یہ بھی پھئے :  کورونا کا طبی عملے پر حملہ، کہاں ہیں محمود خان؟ فداعدیل

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، خیبر یونین آف جرنلسٹس سے وابستہ صحافیوں، پشاور پریس کلب اور صوبے کی دیگر صحافتی تنظیموں نے جمشید باغوان اور اعجاز احمد پر ہونے والے حملوں کو تشویشناک قرار دیا ہے اور ذمہ دار عناصر کی فوری نشاندہی کرکے قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسے واقعات کو معمولی قرار دے کر خاموشی اختیار کی گئی تو کل خدانخواستہ کوئی بڑی واردات بھی ہوسکتی ہے، دہشت گردی کے واقعات میں کمی ضرور آئی ہے مگر جو دباؤ صحافیوں پر کچھ عرصہ قبل چاروں جانب سے ڈالا جاتا رہا، اس دباؤ میں کوئی کمی نہیں آئی، صحافیوں کو جان سے مارا گیا، دھمکایا گیا، اغوا کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جب ہر جانب آزادی اظہار رائے کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، صحافی آج بھی دباؤ کا شکار کیوں ہیں؟ جمشید باغوان اور اعجاز احمد پر تو محدود حملہ کیا گیا، آج صحافیوں اور ان کے بچوں پر بھی حملے ہورہے ہیں، صحافیوں سے روزگار چھیننے والے اور ان کے بچوں سے نوالہ چھیننے والے ان موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں سے زیادہ بھیانک کردار کے حامل ہیں جنہوں نے جمشید باغوان اور اعجاز احمد پر ہاتھ اٹھایا۔

یہ بھی پڑھئے:  کھوکھلا سلیوٹ نہیں چاہیئے : تحریر رفعت انجم

 


کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں