کوہستان ایک پسماندہ علاقہ ہے جسکی وجہ سے یہاں کی قدیم روایات اب بھی زندہ ہیں یا شائد یہاں کے لوگ ثقافت سے جدت کو پسند نہیں کرتے، شادی بیاہ کی رسومات کوہستان میں سب سے الگ ہیں، سب سے اچھی بات تو یہ ہے، کہ کوہستان جہیز سے پاک ہے، یہاں جہیز کے حوالے لڑکی والوں کو کوئی پریشانی اٹھانی نہیں پڑتی، بلکہ لڑکی کی طرف جو جو سامان لیا جاتا ہے، اس کیلئے بھی لڑکے والوں سے شادی سے قبل حسب توفیق رقم ادا کی جاتی ہے، خالہ ذاد، چچاذاد اور قریبی دوست شادی پر ایک شاندار بکرا ساتھ لیکر آتے، جسے خوبصورت رنگوں سے سجایا جاتا ہے، یا پھر بکرے کی جگہ اتنے نقد پیسے لڑکے والوں کو دیئے جاتے ہیں، جس سے لڑکے والوں پر شادی کے اخراجات کا بوجھ بھی کم پڑتا ہے،شادی ہال کی روایت کوہستان میں نہیں ہے، نکاح کی رات ایک بڑے گھر کو خالی کیا جاتا ہے جسے “دیرو” کہتے ہیں، جہاں کشتی کیلئے اسی خاندان اور دیہات کے علاوہ طاقتور لڑاکو بلائے جاتے ہیں، اور شاندار کشتی ہوتی ہے، ساتھ ساتھ مقامی شعراء اور گلوکار فن کا ظاہرہ بھی کرتے ہیں،
کوہستان کو یہ اعزاز حاصل ہے، یہاں ہمیشہ کوہستانیوں کا ہی راج رہا ہے، یہاں کسی اور کی بادشاہی کبھی قبول نہیں کہ گئی، انگریز یہاں قدم جمانے کی جرات نہیں کرسکا، اور نہ ہی مشرقی کوہستان میں والی سوات کی حکمران کو تسلیم کیا گیا، کوہستان سے آگے گلگت بلتستان اور نیچے شانگلہ اور ہزارہ کے دیگر اضلاع کسی نہ کسی فرد واحد کی حکمرانی میں رہے ہیں، مگر کوہستان کے غیرت مند قبیلے نے ماضی میں کسی کو اپنے اوپر مسلط ہونے نہیں دیا، اسلئے کوہستان کی آثار قدیمہ بھی اپنا اور عظمت رفتہ بھی اپنے خون سے جڑے ہوئی ہے، جو ایک فخر سے کم نہیں۔
کوہستان میں کوہستانی زبان بولی جاتی ہے جو گلگتی یعنی “شینا” زبان سے 95 فیصد مشابہت رکھتی ہے، بدقسمتی سے اب تک کوہستانی زبان کو officially recognise نہیں کیا گیا، اور نہ ہی اسکا ادب اور لٹریچر ہے، بس ایک نسل سے دوسرے نسل تک منتقل ہوتی گئی۔ کوہستان کا ایک تحصیل سیئو اور کندیا ایسے علاقے ہیں جہاں کے مرد اعلی روایتی اقدار کی مثال ہیں، یہاں اپنے بزرگوں کو اتنی عزت اور احترام دیا جاتا ہے، کہ نوجوان ننگا سر لئے بزرگوں کے سامنے بیٹھنے کی جرات نہیں کرتے، ہر چھوٹا یا بڑا ٹوپی پہنے ہوئے نظر آتا ہے، زیادہ تر اون والی روایتی کوہستانی ٹوپی پہنی جاتی ہے، مگر کہیں کہیں cap کا استعمال بھی کیا جاتا ہے، بزرگوں کی سامنے چھوٹے باتیں نہیں کرتے جب حجرہ یا بیٹھک میں بزرگوں کی محفل لگتی ہے، تو نوجوان انکی باتیں سننے دور دور سے آتے ہیں، علاقے کو کوئی بھی بزرگ کسی بھی چھوٹے یا نوجوان کو کہیں بھی، کسی بھی غلطی پر اپنے بچے کی طرح ٹوک سکتا ہے، لیکن مجال نہیں کہ کوئی چھوٹا بڑے کے سامنے اف تک کہہ سکے، یہ چندخصوصیات اہل کوہستان کو دوسروں سے منفرد بناتی ہیں۔
دو خصوصیات کوہستان میں پائی جاتی ہیں جو اس علاقے اور اہل کوہستان کو باعث فخر بناتی ہیں، ایک یہ کہ کوہستان میں چوری چکاری کا تصور ہی نہیں ہے، تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ کسی مسافر کو شاہراہ قراقرم پر لوٹا گیا ہو، ایک آدھ واقعات پیش آئے جس میں بھی دیگر اضلاع کے لوگ ملوث پائے گئے۔ یہاں موٹر سائیکل اور گاڑیوں کو گھر کے اندر یا گیراج میں پارک نہیں کیا جاتا، بلکہ سڑکوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے، اسکے باجود چوری کے کسز سامنےنہیں آتے۔ دوسری خصوصیت یہاں کے لوگوں کے خون میں مہمان نوازی رچ بسی ہوئی ہے، مہمان کی آمد رحمت سمجھتے ہیں، جسکی تازہ مثال کورونا وائرس اور لاک ڈاون میں علاقے کے نوجوانوں نے پیش کی، جب سے لاک ڈاون ہوا ہے، جو مسافر سینکڑوں کلومیٹر مسافت کرکے کوہستان سے جاتے تھے، انہیں کھانے پینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا پھر مقامی نوجوانوں نے اپنی جیب سے خرچہ کرکے دوبیر بازار، پٹن بازار اور کمیلہ بازار میں خود کھانا پکا کر مسافروں کو پیش کرگیا، یعنی لاک ڈاون میں کوئی بھی مسافر کوہستان سے بھوکا نہیں گزرا۔ یہ نوجوان کسی سے فنڈنگ لیتے ہیں اور نہ ہی کوئی تنظیم کی صورت میں فلاح انسانیت میں مصروف ہیں جہاں جہاں نوجوان آپس میں چندہ نہ کرسکے وہاں اپنے اپنے گھروں سے چاول اور دیگر کھانا پکا کر سڑک کنارے رکھ دیا جہاں سے کوئی بھی آتا جاتا مسافر کھانا کھا سکتا ہے۔ان نوجوانوں نے کسی سے ٹریننگ لی اور نہ ہی انہیں یہ کام کرنے کو کہا گیا، بلکہ صرف نیکی کمانے کا ایک موقع ہاتھ لگا، جس سے انہوں نے فائدہ اٹھایا اور پاکستان کی مصروف ترین شاہراہ پر روزانہ ہزاروں مسافروں کو مفت کھانا کھلاتے ہیں اور بدلے میں ڈھیر ساری دعائیں لیتے ہیں۔
بہت ہی خوب بس کوہستان سے قوم پرستی ختم ہو جائی تو مزید بہتر ہو گا
دل کو خوش رکھنے کیلے یہ خیال بھی اچھا ہے غالب