میت کو پلاسٹک میں لپیٹ کر سپردخاک کرنا کس کے حکم پر ؟ تحریر : رسول داوڑ

ہاں یہ سچ ہے کہ کرونا مہلک وبا ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اکثر لوگوں کے ذہنوں میں شبہات پائے جاتے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ کرونا وائرس سے مرنے والے شخص کی میت کو پلاسٹک میں لپیٹ کر کوئی قریب جانے کو تیار کیوں نہیں ہوتے، اوراس کی تدفین کے لئے اتنا خاص اہتمام کیوں کیا جاتا ہے ؟؟؟ چونکہ مرا ہوا شخص کھانس اور چھینک نہیں سکتا ہے اس لئے وائیرس اس کے جسم یا پھیپھڑوں کے اندر رہ جاتا ہے جس کا باہر آنے کے کوئی چانسز بھی نہیں۔ پھر یہ سب کچھ کیوں ؟۔ اس سوال کا جواب مجھے ورلڈ ہیلتھ ارگنائیزیشن (ڈبلیو ایچ او ) کے ایک تحریری رپورٹ میں ملا جس میں صاف صاف لکھا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے مرنے والے شخص کے جسم سے وائیرس نہیں پھیلتا، جب فوت ہونے والے شحص کے جسم سے وائیرس پھیلنے کا کوئی چانس نہیں تو پھر ہمارے ہاں مرنے والوں کو ان کے لواحقین کے حوالے کیوں نہیں کیا جاتا؟ شمالی وزیرستان تحصیل میرعلی گاوں خیدر خیل کے مشہور ڈرائیور براگ جب افغانستان میں ہارٹ آٹیک سے فوت ہوا تو ان کے رشتہ داروں کو فورسز کے اعلی حکام نے کیوں کہا کہ ھم رسک نہیں لے سکتے اور انہیں پاکستان لانے کی اجازت تب ہوگی جب انکی کفن دفن میں ان کے خاندان والے بھی شریک نہ ہو اور کرونا سے جاں بحق فرد کی طرح لاش ڈائیریکٹ دفنانے قبرستان لے جانا ہوگا۔ جس پر اس کے خاندان والوں نے کہا کہ ہارٹ آٹیک سے جاں بحق ڈرائیور کو ھم کرونا مریض کی طرح دفنانے کو تیار نہیں ۔اس صورتحال میں انہیں امانتا افغانستان میں دفنایا گیا، کیا حکومت و فورسز عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے پروٹوکول اور ریسرچ سے بے خبر یا زیادہ سمجھدار ہے ؟ اگر ایسا ہے تو کیا عام جنازوں میں سینکڑوں لوگوں کے جمع ہونے پر کیا یہ وائیرس نہیں پھیلتا ؟ شانگلہ میں کرونا سے جاں بحق شخص کے نماز جنازہ پڑھانے سے مولوی /عالم دین نے کیوں انکار کیا ؟ سوال یہ ہے کہ آج تک کتنے جنازے ہوئے ان میں کتنے لوگ اکھٹے ہوجاتے ہیں۔ وائرس تو تب بھی پھیل سکتا ہے تو پھر حکومتی سطح پراتنا خوف کیوں پھیلایا جاتا ہے؟ اور عام لوگوں کو غیر ضروری اتنے کیوں تنگ کئیے جاتے ہیں کہ کھبی تاجر برادری اعلان کر دیتے ہیں کہ وہ مذید لاک ڈاون برداشت نہیں کرسکتے کھبی علماء کرام مساجد کو دوبارہ آباد کرنے کی بات کرتے ہیں، عام لوگوں تک صحیح معلومات غیر مبہم الفاظ میں پہنچانا حکومت اور ماہرین صحت کا کام ہے تاکہ لوگ خوامخواہ کے شکوک و شبہات میں نہ پڑے اور وائیرس کے خاتمے کے لئیے متفقہ طور پر تعاون جاری رکھیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں