لاک ڈاؤن ، نفسیاتی مسائل بڑھنے کے خدشات: تحریر: یاسر حسین

تحریر یاسر حسین
yaser.hussain1980@gmail.com
خوشی اور غم زندگی کا لازم ملزوم جزوہیں۔جہاں خوشیاں ملتی ہیں تو ساتھ میں غم بھی آتے ہیں۔انسان کی تمنا ہوتی ہے کہ صرف خوشی اور راحت ملے مگر ایسا ممکن نہیں ہوتا۔غم اور تکالیف بھی مقدر میں لکھے ہوتےہیں۔ ہمارے ملک کے لوگوں نے جہاں طویل دہشتگردی کو جھیلا ۔وہیں قدرتی آفات نے بھی اسے بری طرح متاثر کیا۔ آج کل تقریبا دوسو ممالک کی طرح پاکستان بھی کورونا وائرس کے چنگل میں ہے ۔پاکستان کے طول و عرض میں عوام اس وائرس کا تیزی سےشکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وائرس سے بچاو کے لیے ابھی تک کوئی ویکسین بھی تیار نہیں ہوئی ۔ اس جدید ترقی یافتہ دور میں بھی جب انسان اپنی سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی پر نازاں ہے ایک نظر نہ آنے والے وائرس کے آگے بے بس ہو چکا ہے۔ اس سے نمٹنے کا ایک ہی حل اسے سوجا ہے اور وہ ہے لاک ڈاون اور سماجی دوری۔ پاکستان میں بھی اس وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے لاک ڈاؤن سمیت ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔ ایک طرف عوام کے کورونا کے خوف میں مبتلا ہیں ۔تو دوسری جانب کاروبار زندگی رک جانےسے پریشانیوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔اقتصادی پہیہ رک جانے سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے ، گھروں میں فاقوں کی نوبت آ چکی ہے۔اب تو بات خودکشیوں تک آگئی ہے، وجہ معاشی پریشانی ہے ، ادھر کورونا وائرس بے قابو ہو چکا ہے ۔ایسے میں لوگ ذہنی بیماری میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ صورتحال ایسی رہی تو آنے والے دنوں میں نفسیاتی مسائل کو قابو کرنا مشکل ہو جائے گا۔ روزگار نہ ہو اور گھر میں بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کچھ نہ ہو تو انسان کے دماغی توازن کھونے کے خدشات برڑھ جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں مکمل لاک ڈاؤن ہے۔اگر صورتحال مزید کچھ عرصہ ایسی رہی تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے ۔ اس لیے حکومت کوہنگامی بنیادوں پر کوئی حکمت عملی وضع کرنی ہو گی کہ شہریوں کو کس طرح ذہنی پریشانی سے بچا سکے انہیں ضروریات زندگی بسہولت پہنچا سکے۔ ورنہ کورونا سے تو کچھ نقصان ہوگایا نہیں لیکن ہر کوئی نفسیاتی مریض بن جائے گا ۔ نفسیات کا تعلق سوچ سے ہے اور اس وقت ہر فرد اسی سوچ میں ہے کہ کب وائرس کا ختم ہوگا اور معمولات زندگی بحال ہوں گی اور زندگی پہلے والی ڈگر پر رواں ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں