بے حیا بلبلوں کا جوڑا….! تحریر : شیراز پراچہ

میرے کمرے کی چھت پر نصب ایئر کنڈیشنر کے آوٹر میں ایک بلبل اور اسکا بوائے فرینڈ گھر بنا چکے ھیں- مجھے پرندوں کے چہچہانے کی اوازیں اچھی لگتی ھیں, میں گھر کی چھت پر ایک برتن میں باجرہ رکھتا ھوں جسے کھانے کے لیئے چڑیوں کی ایک فوج صبح و شام آن موجود ھوتی ھے- چونکہ پرندوں کی بہت ساری دوسری قسمیں ھم مار چکے ھیں اس لیئے اب صرف چڑیوں ہی کو دیکھ اور سن سکتے ھیں- صبح میری آنکھ چڑیوں کے چہچہانے بلکہ باجرے پر ان کے لڑنے بھڑنے کے شور سے کھلتی ھے تاھم گذشتہ چند دنوں سے میں چڑیوں کے علاوہ کچھ دوسرے پرندوں کی بھی اوازیں سنتا رہا ھو ں-

پچھلے ڈیڑھ ماہ سے میرا زیادہ تر وقت گھر کے اندر اور انسانوں سے دور گزر رہا ھے اس لیئے آوازیں سننے کے معاملے میں کان بہت حساس ھوجکے ھیں غالبا” اسی وجہ سے میں نے باہر سے آنے والے پرندوں کی آوازوں کے فرق کو نوٹ کر لیا- چڑیاں تو صبح سویرے شور شرابہ کر کے اور کھا پی کے اڑ جاتیں لیکن یہ نئی آوازیں میں پورا دن سنتا رہا ایسا لگتا تھا کہ جیسے ہہ نئے پرندے آپس میں باتیں کر رہے ھو ں– کبھی پیار محبت کی تو کبھی لڑ جگھڑ رہے ھوں-

چند دن پہلے میں اوپر گیا تو میں نے دیکھا کہ دو بلبل ھمارے اے سی کے آوٹر پر بیھثے ٹرا رہے تھے یا آپس میں بات چیت کر رہے تھے- میں انکے باہمی رشتے کا تعین نہ کر سکا نہ ہی یہ جانچ سکا کہ وہ دونوں مرد حضرات تھے یا خواتین، مرد اور عورت کے یوں کھلم کھلا اکھٹے بیٹھنے کا تصور میں نہیں کر سکتا— پاکستانی ھوں نا—-مرد اور عورت کی ایسی قربت کے بارے میں سوچ کر ہمیں احساس گناہ ھوتا ھے, شرم سی محسوس ھوتی ھے- پاکستان میں مرد اور عورت یوں بیٹھ کر بات نہیں کر سکتے یا ا نہیں نہیں کرنی چاھئے لھذا میں نے ان دونوں بلبلوں کو دو دوست یا سہلیاں تصور کر لیا جو کہیں سے ھمارے اے سی آوٹر پر آن بیٹھے تھے اور کسی اھم مسلے پر بات کر رہے تھے- میں واپس کمرے میں آگیا یہ سوچ کر کہ بلبل ابھی اڑ جایئنگے، مگر نہیں, ان کی آوازیں آ تی رھیں کبھی مسلسل کبھی وقفے وقفے سے ، میں نے دل میں سوچا بڑے ڈھیٹ, فارغ بلبل ھیں-

اگلے روز صبح سویرے پھر چڑیوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ بلبلوں کی آوازیں بھی آنا شروع ھو گئیں، اس مرتبہ اونچی اور نمایاں آوازیں تھیں- میرا گھریلو مددگار فیاض جب مجھے ناشتہ دے رہا تھا تو میں نے اس سے کہا کہ وہ جا کر دیکھے کہ آیا یہ بلبل ہی ھیں ، فیاض نے واپس آکر بتایا کہ جی بلبل ھیں- میں نے پوچھا کتنے؟ اس نے کہا دو، میں نے پھر پوچھا کہاں بیٹھے ھیں؟ اس نے جواب دیا اے سی کے آوٹر پر- میرے کان کھڑے ھو گئے، میں نے سوچا کیا یہ وہی کل والے بلبل ھیں ،اپنی تسلی کے لئے میں خود گیا اور دیکھا تو دو بلبل۔بیٹھے تھے مگر میں فیصلہ نہ کر پایا کہ آ یا یہ وہی دو بلبل تھے جنہیں میں نے ا یک دن پہلے دیکھا تھا- خیر اس مرتبہ میں نے انہیں گھور گھور کر دیکھا اور کچھ نشانیاں پہچان کے لئے مقرر کر دیں، یہ تمام دن بولتے رہے مگر شام کو خاموشی چھا گئی- اگلی صبح پھر وہی آوازیں اور وہی بلبل، اب جب میں گیا اور غور سے دیکھا تو یہ کل پرسو ں والے بلبل ہی تھے- تیسرا دن بھی اسی طرح گزرا اور چوتھا بھی، پانچویں روز میں نے باقائدہ کرسی ڈال کے دور سے ان بلبلوں کا مشائدہ شروع کردیا- ابھی مجھے بیٹھے کچھ ہی دیر ھوئی تھی کہ دو میں سے ایک بلبل رہ گیا مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا کیونکہ میں نے ان میں سے ایک کو بھی اڑتے نہیں دیکھا تھا- چند لمحوں کے بعد دوسرا بلبل بھی غائب ھو گیا مگر کھسر پھسر اور کھٹ پٹ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں- میں اٹھا, آگے بڑھا اور معاملے کو جاننے کی کوشش کی- کچھ ہی دیر میں مجھے پتہ چل گیا کہ وہ دونوں اے سی آوٹر میں گھس ھوئے تھے میں حیران کہ یہ وہاں کیا کر رہے تھے-

چند روز میں مجھے پتہ چل گیا کہ دونوں بلبل اے سی آوٹر میں آتے جاتے رھتے ھیں- میں نے فیاض سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ھو سکتا ھے- وہ بیچارہ ھنس دیا جیسے میری عقل پر ماتم کر رہا ھو، اس نے کہا، سر، انہوں نے آوٹر میں گھر بنا لیا ھے جسے اگر فوری طور پر ختم نہ کیا گیا تو انکے بچے جنم لینگے-
کیا….؟ میں نے حیران ھو کر پوچھا مجھے یہ سوچ کر ہی ہول آنے لگے کہ میرے گمان کے بر خلاف یہ بلبل دو دوست یا سہلیاں نہیں بلکہ بوائے اور گرل فرینڈ تھے اور یہ اس بے حیائی کا ارتکاب دن د یہاڑے میرے کمرے کی چھت پر اور وہ بھی میرے اے سی آوٹر کے اندر کر رہے تھے- فیاض مجھ سے انہیں نکال باہر کرنے کی اجازت طلب کر رہا تھا، غصہ (جس میں اچھی خا صی مقدار حسد اور حسرت کی بھی شامل تھی) مجھے بہت تھا عریانی،فحاشی اور بے حیائی کے اس مظاہرے پر، مگر چونکہ میں نے زندگی میں کبھی کسی کا گھر تباہ نہیں کیا بلکہ ایسا سوچا بھی نہیں اور پھر بچوں سے مجھے ویسے بھی پیار ھے چاھے وہ ھونے والے ھوں یا جیسے بھی اس دنیا میں لائے گئے ھوں- میں نے فیاض سے کہا مجھے سوچنے دو-

کافی غور وغوص کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ یہ سارا ماجرہ کسی پیر صاحب سامنے رکھوں کیونکہ ہم بے دماغوں کو ہر معاملے میں روحانی پیشواؤں کی رہنمائی کی ضرورت ھوتی ھے- پوچھنا ان سے میں یہ چاھتا ھوں کیا ان بلبلوں کا باہمی تعلق جائز ھے؟ ان کے ھونے والے بچوں کی حثیت کیا ھوگی؟ علاوہ ازیں انہوں نے میرے اے سی اوٹر میں بلااجازت گھر بنا کر بے حیائی کا جو ارتکاب کیا ھے اسکا مداوا کیسے ھو سکتا ھے؟

کیا اپ میں سے کوئی دوست مجھے طارق جمیل صاحب کا رابطہ نمبر بتا سکتا ھے؟ شاید وہ مدد کردیں کوئی ایسی دعا فرمائیں کہ جس کے نتیجے میں
میرے اے سی کے آوٹر سے بے حیا بلبلوں کا یہ جوڑا اپنے ھونے والے بچوں کےسمیت چلا جائے اگر ایسا نہ ھوا تو گرمی آرہی ھے میں اے سی نہیں چلا سکوں گا اور اس کمبخت جوڑے کی وجہ سے اس دنیا میں دوزخ جیسی گرمی میں جھلستا رہونگا نجانے کس گناہ کی سزا ھوگی یہ….
تحریر: شیراز پراچہ

اپنا تبصرہ بھیجیں