پشاور میرا آبائی شہر نہیں مگر اس شہر سے میری انسیت اتنی ہے کہ اس کے لئے میں نے اسلام آباد جیسے شہر میں ملازمتیں ٹکرائی ہیں ۔ دوست احباب ہمیشہ پوچھتے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا منطق ہے کہ تم پشاور کو چھوڑتے ہی نہیں ہو۔ اس کا میرے ساتھ کوئی جواب نہیں ہے ۔ مگر پھر یوں ہو ا کہ میں پشاور سے دور ہوگیا اور گزشتہ دوسالوں سے صوابی میں ملازمت کے سلسلے میں مقیم ہوں ۔ مگر کوئی دن ایسا نہیں ہوگا جب پشاور کی یاد دل سے محو ہوئی ہو۔ یہاں جوانی کے دن گزارے تھے۔ یہاں ملازمتیں کیں ۔ گلیوںاور چوباروں سے آشنائی ہوئی ۔ یہاں سے صحافت کے پرخطر میدان میں قدم رکھا ۔ سانحات سے نبردآزمائی ہوئی ۔ پشاور اور پشاورکے لوگوں نے عجیب طریقے سے استقبال کیا۔اچھے لوگ بھی ملے مگر برے لوگوں کی بھی کمی نہیں رہی۔ سچ لکھنا شروع کیا تو تکلیفات کا سامنا کرنا پڑا۔ایسے وقت میں پشاور میں وقت گزارا جب پشاور شہر لہو لہو تھا۔ ہر طرف دہشت گردی تھی ۔ پشاور ہٹ لسٹ پر تھا۔ کوئی دن ایسا نہ ہوتا جب پشاور شہر کے باسی لرزے نہ ہوں ۔ اس شہر آشوب کے باسیوں نے بہت قربانیاں دیں ۔ اور اب بھی مختلف طریقوں سے قربانیاں دے رہے ہیں ۔ جس میں ایک بی آرٹی بھی ہے ۔جب اس شہر کے مکینوں کی قربانیوں کو دیکھتا ہوں تو یہ شہر چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ اس شہر کے چپے چپے نے قربانی دی ہے ۔ یہ قربانیوں کا شہر ہے ۔ جس کی تاریخ بہت وسیع ہے اگر دیکھیں تو پشاور محض ایک خطے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ لفظ اور یہ نام اپنے پس منظر میں ایک ہمہ گیر ثقافت کی رعنائی بکھیرتا نظر آرہا ہے ، جس سے رشتوں کی تکمیل کی کہانی ، احساسات کے نشیب وفراز کے حوالے اور پشتون قدروں کی خوشنمائیاور جاذبیت اپنی پوری وجود پوری وجود کو ثابت کرتی نظر آرہی تھی لیکن گزشتہ موسموں نے اس شہر خوشنما کے بطن میں وسوسوںاور اندیشوں کی فصل کاشت کی ہے ، اس شہر میں نے یقینی عام ہوئی بے چہرگی کا سایہ ہر آدمی کے سراپے پر حاوی ہوتا چلا۔ یقینا یہ عجیب کیفیت سے دوچارگی کامقام ہے اس سے کئی اندیشوں نے جنم لیا ۔اس زرخیز خطے کی ماضی ، حال اور مستقبل پر مبنی اثرات مرتب ہونے کا امکان موجود ہے ۔ پشتو خطوں میں جہاں بھی ایسی حالاتوں کا ادراک ہواتو پشتون شعراءنے ا ن حالات کو امن ، محبت اور خوشی میں بدلنے کے لئے اسے نہ صرف شعر کی زبان دے رکھی ہے بلکہ عملا بھی اس تحریک کا حصہ بنے۔ اگر پشتون خطے کے حالات اور ادب کے اس تسلسل کو رحمان بابا کے دور کے حالات تک لے جائیں تو رحمان بابا کا پشتو کا یہ شعر اس دور سے لیکر آج تک تما م حالات کو مفہوم بنا کر نظر آرہی ہے ۔
پہ سبب د ظالمانو حاکمانو کور اور گور اور پیخود دریواڑہ یو دی
پشتو کے اولسی شاعری میں بھی وقتا فوقتا اس طرح کے حالات اور واقعات نظم کی گئی ہے جس کے بہت سارے نمونے خصوصاپشتو ٹپہ میں ملتے ہیں ۔ بہر حال ہم شاعری کے ساتھ ساتھ اس شہر پشاور کی بات کرتے ہیں جس کے حوالے سے ہمارے بابا خوشحال خان خٹک نے کہا تھا کہ
لکہ دا خکلی دا پیخور دی حسی بہ نہ وی بل دیا ر کے
لیکن آج پشتو ادب اور خصوصا شاعری کے اس عنوان اور مضمون نے اپنا محبوب بدل ڈالا ہے جسے پانے کے لئے آج اس شہر میں آدمی کھوجاتاہے ۔اس بدلتی عنوان اور مضمون کو اگر آج اباسین یوسفزئی کے اس شعر کے تناظر میں دیکھا جائے تو شہر کے ان بدلتے موسموں کے ساتھ بندہ آسانی کے ساتھ مل جاتا ہے اور آشنا ہوجاتا ہے ۔
چہ پہ کالونو پکے یوبل سڑی نہ شی لیدی مورے دعا راتہ کوا زہ پیخور تا زما
اس میں کوئی شک نہیں کہ پشاور شہر کاسینہ بڑا کشادہ ہے اس وطن نے ہر خطے کے لوگوں کو نہ صرف اپنے سینے سے لگایا ہے بلکہ روزگار کے ساتھ ساتھ عزت اور شہرت بھی دی ہے ، اپنے تو اپنے پچیس لاکھ افغانیوں کو اپنے سینے سے چمٹائے رکھا۔ جب سوات میں آپریشن ہوا تو لاکھوں لوگوں کو بسائے رکھا۔ محبتوں اور اذانوں کے اس شہر نے اپنی روایاتی انداز میں ہمیشہ محبتوںکے معصوم جذبوں کو پالا ہے ۔ اسی لئے تو مدتوں سے محبوب نے اپنے عاشق سے اس پشتون وطن کے روایتی سنگار کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ
لاڑشہ پیخور تا قمیص تو ر ماتا راوڑہ
لیکن بدقسمتی سے پھولوں اور رنگینیوں کے اس شہر نے جب بموں اور گولیوں کی گھن گرج سنی تو شاعر کے اس مضمون میں بھی تبدیلی آئی باہر کے دشمنوں اور اپنے گھر کے غمازوں نے بھی اس شہر کے چہرے پر تھپڑ مارے ہیں اور اسے بد رنگ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔اس لئے تو روخان یوسفزئی نے اسی حالات کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ
ماباندی یارانو کرخے ماراخکے زہ خو د ہر چایم پیخور یما
پشاور شہر کی وجود سڑکوں اورگھروں کی طرح اس کے کلچر کو بھی اس بدلتی موسم کے سہارے جینا پڑا ہے ۔ اس شہر کے پرانے آثار مٹ رہے ہیں ۔ رہی سہی کسر موجودہ حکومت کی بی آرٹی کے منصوبے نے پوری کردی ہے ۔ ہمارے اباﺅاجداد کے نقوش مٹ رہے ہیں ۔ ہماری زبان سے وہ مٹھاس چوسی جارہی ہے ۔ جس میں گاتے ہوئے بھی زندگی میں رمق پیدا ہوتی ہے ۔ جس کو پڑھتے ہوئے بھی آرام اور لذت محسوس ہوتا ہے ۔ جس میں محبتوں کے لازوال جذبوں کا اظہار کرتے ہوئے بھی ہماری محبت کی داستانیں آدم خان درخانئے کی تاریخ اور ایسی حقیقی واقعات کی پاسداری کرتی ہے ۔ آج پشاور شہر کی ویرانی قصہ خوانی بازار کی کہاوتوں جو کبھی میلے کا منظر پیش کرتی شام سے پہلے ویران پڑجاتی ہے ۔ آج اسی شہر میں علم وادب کے عظیم درسگاہ پشاور یونیورسٹی کی حالت زار جہاں اساتذہ کو دینے کو تنخواہیں نہیں ، جہاں زرعی یونیورسٹی معاشی بدحالی کا شکار ہے جہاں اسلامیہ کالج کے تشخص کو پامال کرنے کے لئے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا حالانکہ اس کے ساتھ ہی پشاور یونیورسٹی موجود ہے ۔ ایڈورڈ کالج بھی سیاسی عناد کا شکار ہوگیا ہے۔ یہاں کی سڑکوں کو خوبصورتی کے نام پربدصورت بنادیا گیا ہے ۔ اس شہر کی ویرانیوں کو انسانی روح اور نفسیات قید کرچکی ہے اس لئے تو مرحوم ڈاکٹر صاحب شاہ صابر نے اس مضمون کو ایک حقیقی تصویر کی شکل دی ہے وہ کہتے ہیں کہ
پہ پیخور داسی سہ چل شوے چہ وسے پکے زڑہ بہ دی تنگ وی پہ وجود کے با دی سا خفاوی
بہر حال پشاور کے اس حالات کو جس انداز میں نظم کی گئی ہے وہ اپنی جگہ قابل ستائش ہے لیکن اس تخلیق کی بسیار نویسی سے شاعری میں ہمہ گیریت نہیں رہے گی ۔اور جب اس تخلیق پر تھوڑا سا وقت گز ر جائے گا تو ایک بندہ اس تاریخ کو پڑھے گا اور ان حادثات اور واقعات سے عبارت اس تاریخ کا ان پر کیا اثر ہوگا۔ یقینا ہمارے ادب پر بھی ہوگا اور اس کے پڑھنے والے پر بھی ۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ پشتون علم وادب سے اپنا رشتہ چھوڑنے کی بجائے اور مضبوط کرے اور ہمیں مایوسی کے دلدل سے نکل کر حالات کا مقابلہ کرنا چاہیئے ،اس امید پر کہ ہم جس تاریکی سے گزر رہے ہیں اس کے اگلے پار جارہے ہیں ۔ وہاں وہ روشنی موجود ہے جس کے لئے ہم نے شب وروز محنت کی ہے اور جب وہ صبح نکلے گی تو پشاور ہمارے ادب کلچر اور محبتوں کا وطن ایک بار پھر رنگینیوں اور پھولوں کا نظار پیش کرتا نظر آئے گا جس کو اب کسی کی نظر لگ گئی ہے
Load/Hide Comments