کامران بنگش، ریاض غفور اور جلالی صحافی۔؟ آفاقیات، رشیدآفاق

ویسے کامران بنگش کی عمر، حوصلے، شائستگی اور اطلاعات کی رسائی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص کسی پرانی انڈین فلم میں اس ڈاکئے کا کردار آدا کرچکے ہیں جن کے ساتھ پورا گاؤں باپ جیسا پیار کرتا ہے اور روز ان کا ایسے انتظار کیا جاتا ہے جیسے مسیحی دنیا میں بچے سانتا کلاس کے تحفوں کا انتظار کرتے ہیں،

یہ معصوم سا چہرہ لئے بروقت اطلاع دینے اور ہر تھکا دینے والے موضوع پر یوں ہنس کر بات کرتے ہیں جیسے یہ کوئی اپنی کامیاب لو سٹوری سنا رہا ہو،

اکثراوقات حکومتی ناکامیوں کو بھی یوں بیان کرتے ہیں ۔۔۔۔

جیسے مریخ فتح کرکے آیا ہو؟؟

اور اگلہ ہدف چاند کی طرف ہو؟

نرم مزاج رکھنے والے کامران بنگش کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ موصوف ہمارے دو ایسے خلائی اور ملائی رپورٹر کو بھی نہ صرف جیل رہے ہیں ؟؟

بلکہ ان کے ایسے ایسے اور لگاتار بلکہ گوتھم بعد ٹائپ کے سوالوں کا بھی ایسے خندہ پیشانی سے جوابات دیتے ہیں کہ کھبی نہ تھکنے والے دونوں حضرات بھی آخر میں تھک ہار ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ مڑہ مزہ ئے اونکڑہ،

یہ دونوں رپورٹر حضرات ایک سیف الرحمن جلالی صاحب اور دوسرا گلاب علی صاحب ہیں،،،

یہ دونوں حضرات ہر پریس کانفرنس کے لئے گھر سے ایک سو بیالیس سوالات لکھ کر آتے ہیں،،،

پھر آپسمیں مقابلے کا سماء بنا کر نئی نئی باتوں لگ کر بے چارے کامران بنگش پر یوں چھڑدوڑتے  ہیں ،،،

جیسے بھوکے پیاسے روزہ دار افتاری کی وقت دسترخوان پر حملہ آور ہوتے ہیں،،،،

پھر آخر میں گن کر اپنے سوالوں کا حساب لگاتے ہیں کہ کوئی سوال اور کامران بنگش کو پینٹی لگانے میں کوئی کسر رہ تو نہیں گئی؟

ان کے سوالات بھی نرالے ہوتے ہیں مثلاً کامران بنگش کہتے ہیں،،،

کہ ہماری بات مائیکروسافٹ والوں کے ساتھ پکی ہے ہم یہاں آئی ٹی انڈسٹری لارہے ہیں؟

جلالی صاحب سوال داغتے ہیں کہ افریقہ میں آج کل بھینسوں کی نسل ختم ہورہی ہے،،،

اس حوالے سے کیا صومالیہ کی حکومت سے بات کی گئی ہے؟؟

یا کامران بنگش کہتے ہیں کہ ہم فلم انڈسٹری کو فروغ دینا چاہتے ہیں،،،

اور جلالی صاحب بیچ میں پٹخ کر چلانگ لگاتے ہیں کہ ،،،،

انڈیا میں مزاروں کی تعداد کتنی ہیں؟؟

اور ہمارے ہاں مزاروں پر چرس کیوں پیاجاتاہے؟؟

اسی طرح گلاب علی صاحب بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اپنے سوال کا آغاز تقریر کی شکل میں فرماتے ہیں ؟؟

پھر ہر سوال پندرہ منٹس پر محیط ہوتا ہے ،،، اور ان پندرہ منٹوں میں ساڑھے تیرا ہزار الفاظ پر مشتمل سوال کے ہر جملے کا آپسمیں کوئی جوڑ اور لنکس بھی نہیں ہوتا ہے،،،

  جیسے سوال کا آغاز یوں کیا جاتا ہے کہ ڈبلیو ایس ایس پی کی ناقص کارکردگی کا یہ حال ہے کہ پشاور میں آج کل میلے ٹیھلے بھی ختم ہوگئے ہیں ،،،

پہلے یہاں پر بہت رونق ہوا کرتی تھی لیکن جب سے افغان بھائیوں کی وطن واپسی ہوگئی ہے پشاور کے ذائقوں کا دور ہی ختم ہواہے؟؟؟

نمک منڈی میں بھی آج کل ملاوٹ ہورہی ہے ؟؟

پارکنگ کے لئے کسی سڑک پر جگہ نہیں ہے؟؟؟

انڈیا نے آئی ٹی انڈسٹری میں بڑی ترقی کی ہے اور ھم لاہور میں پتنگ بازی پر پابندی لگانے کا سوچ رہے ہیں ؟؟

آخر حکومت کرتی کیا ہے؟؟؟

تربیلا ڈیم کی صفائی اور گنجائش کے لئے ہم نے کیا کیا ہے؟؟؟

چائنہ پوری مارکیٹ پر قابض ہواہے اور آج کل خلائی جنگ کا دور ہے ہمارے شوکت یوسفزئی صاحب ڈاکٹروں انجینئیرز کا پکوڑے فروخت کرنے کی باتیں کرکے کونسی اخلاقی پستی کی طرف قوم کو لے جانا چاہتے ہیں؟

بے چارے کامران بنگش اور ریاض غفور ایک دوسرے کو دیکھ کر انکھوں ہی انکھوں میں ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ یہ بندہ سوال پوچھ رہا ہے یا ہمیں مطلع کرنا چاہتے ہیں ؟؟

تب ریاض غفور کامران بنگش کو سر ہلا ہلا کر کہتے ہیں حوصلہ رکھو بھائی یہ تھکنے والے نہیں ہیں بس اللہ رحم کریگا ویسے بھی کورونا کا دور ہے،اللہ بہت بڑا ہے کوئی راہ نکال لے گا؟؟

اتنے سوالوں کا جواب دینے کے بعد پھر بھی یہ دونوں حضرات کامران بنگش اور ریاض غفور کل پھر بن سنور کر آتے ہیں،،،

یہ الگ بات ہے کہ دونوں پہلے جلالی اور گلاب علی صاحب کو دیکھتے ہیں اور دل میں دعا کرتے ہیں کہ کاش یہ دونوں حضرات آج نہ آتے لیکن پھر ان کی امیدوں پر پانی ڈال کر دونوں حضرات یہ گانا گاتے ہوئے آتے ہیں،،،

کہ تم نے دی آواز تو میں آ گیا، اور پھر کامران بنگش کو لتھاڑنے کے لئے عمروعیار کی زنبیل کی طرح سوالوں کو اپنی اپنی دماغی پٹھاریوں سے نکال کر پریس کانفرنس کو پانی پتی میدان بنا کر دلوں کو ٹنھڈک اور باقی صحافی حضرات کو قریب آل مرگ بنا کر چلتے بنتے ہیں،

آخر میں گلاب علی کامران بنگش مخاطب کرکے کہتے ہیں ذرا تیاری کرکے اجانا تھا نا،

اور جلالی صاحب دروازے سے سوال داغ کر فرماتے ہیں کہ یہ حکومت ہی نااھلوں اور شو بازوں کی ہے،

پتہ نہیں کہاں کہاں کمیشن کھایا جارہا ہے ؟؟

اب یہ کونسا سوال ہے؟؟

گلہ ہے؟؟

شکایت ہے؟؟

الزام ہے؟؟

یا یہ جرنلسٹک اپروچ کا کونسا مقام ہے؟؟

  کامران بنگش نہ بھولے بھالے دیکھنے والے سیانے ریاض غفور اور نہ ہی جلالی صاحب کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا فرمارہے ہیں؟؟

پریس کانفرنس کے دوران اگر کوئی دوسرا صحافی ان دونوں حضرات سے کوئی سوال کرنے کی اجازت چاہے بھی تو اجازت نہیں ملتی ،،

اور اگر کسی نے سوال پوچھنے کی جسارت کی تو پھر جلالی صاحب کی جلال کو برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے،،،

کہ ایسی غیر اخلاقی اور غیر قانونی گستاخیاں جلالی صاحب کی آئین میں ناقابل معافی ہیں،،،

اللہ ہم سب پر رحم کریں یہ دونوں حضرات محترم بھی ہیں اور قابل صحافی بھی،،،

بس اگر ذرا حوصلہ بھی ہوتا تو اور بھی کمال کے بندے ہوتے،،،،

باقی ھم ہمیشہ ان سے سیکھتے آئے ہیں،،،

اللہ ھم سب کا حامی وناصر ہو،،،

رشیدافاق خیبرنیوز پشاور

اپنا تبصرہ بھیجیں