وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے طالبان کو سوات سے واپس ہونے کا مشورہ دیا ہے، انہوں نے طالبان کو پیغام بھیجا ہے، کہ واپس جانے کے بعد مل بیٹھ کر تمام مسائل کا حل نکالیں گے، یہاں ان کے مخالف سیاسی جماعتیں الزامات لگا کر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں ، بیرسٹر نے کہا ہے، کہ اگر یہ لوگ ایسی باتیں نہ کریں تو سیاست کیسے کرینگے ؟
گزشتہ دو مہینوں سے خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جس کا بنیادی وجہ مبصرین افغانستان میں حکومت اور تحریک طالبان کے مابین امن مذاکرات کا عمل ذمہ دار ٹہرارہے ہیں،
سوات میں طالبان نے آتے ہی پولیس ڈٰ ایس پی کو زخمی حالت جبکہ ان کے ساتھ ایک میجر کو گرفتار کئے تھے، تاہم سوات کے مقامی جرگہ نے مجر اور ڈی ایس پی کو آزاد کرلئے، اس کے بعد سوات میں سابقہ امن کمیٹی کے سربراہ اور سوات کے گلی باغ میں سکول وین کو نشانہ بنایا، جس میں وین کا ڈرئیور جان بحق اور سکول کے دو راہگیر بچے زخمی ہوئے تھے، اس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے سوات کے بالائی علاقوں میں اپنے نئے تازہ دم دستے پہنچادئے تاکہ یہاں مزید دہشتگردوں کی کارروائیوں کا تدارک ہوسکے،
اس دوران وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات و نشریات بیرسٹر سیف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ طالبان لڑنے کیلئے نہیں بلکہ ایک کمانڈر اپنی بیمار بہن کی بیمارپرسی کیلئے آیا تھا،
ان تمام بیان بازی اور کارروائیوں کے بعد سوات عام شہری طالبان کی موجودگی کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاجی سلسلہ شروع کیا، جہاں سوات کے مرکزی شہر میں منگورہ میں سوات کی تاریخ کا سب سےکامیاب احتجاج ریکارڈ کیا، جس میں لاکھوں شہری شریک ہوئے،
سوات کے علاقہ مٹہ میں بھی پاکستان تحریک انصاف نے طالبان کی موجودگی اور ان کے خلاف پاک فوج کا ممکنہ کارروائی کے خلاف احتجاج کیا، جسمیں طلبا اور سیول سوسائیٹی کے نمائندے شریک ہوئے، اس موقع پر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے بھائی اور تحصیل مٹہ کے چیئرمین عبداللہ نے کہا ، کہ دہشتگرد سوات میں موجود ہے، جس کے خلاف پاک آرمی نہیں بلکہ مقامی پولیس کو سہولیات فراہم کرکے انہیں با اختیار بناکر طالبان کے خلاف کارروائی کے احکامات جاری کریں، ان کا کہنا تھا، کہ پاک فوج ملکی سرحدات کی حفاظت کریں، یہاں مقامی دہشتگردوں سے نمٹنے کیلئے پولیس ہی کافی ہے۔
Load/Hide Comments