صحافیوں کی زندگی داوپر : تحریر اظھر علی شاہ

اظھر علی شاہ
کرونا وائرس کے خلاف جہاد میں اس وقت جو ادارے فرنٹ لائن پر جنگ میں مصروف ھیں انکی بیش بہا خدمات کو بحرحال خراج تحسین پیش کرنا ھوگا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی ھوگی، فرنٹ لائن پر لڑنے والوں میں صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے مجاھدین پہلی صف میں کھڑے نظر ارھے ھیں جن میں ڈاکڑوں کے علاوہ نرسنگ سٹاف، پیرامیڈکس اور کلاس فور بھی شامل ھیں، اس کے بعد ریسکیو کے رضاکار اور پولیس اھلکار بھی عوام کی زندگیاں بچانے کے لئے اپنی انمول زندگیاں داو پر لگائے کھڑے ھیں
انہی مجاھدین میں صحافی بھی شامل ھیں جو اپکو
ہر وقت ادھر ادھر دوڑتے نظر اتے ھیں ، خصوصا” الیکڑانک میڈیا کے رپورٹرز اور کیمرہ مین ہر متاثرہ مقام پر اس لئے بھی لازمی پہنچتے ھیں کیونکہ انکے ادارے کا حکم ھوتا ھے
ان صحافیوں کی پر اعتماد گفتگو سن کر ایسا لگتا ھے کہ یہ طبقہ کرونا کی افت سے محفوظ ایک طاقتور اور نڈر طبقہ ھے مگر حقیقت ایسی نہی ھے کیونکہ وہ بھی دیگر انسانوں کی طرح ایک عام انسان ھیں جو اپنے خاندانوں کی کفالت کے زمہ دار ھوتے ھیں اور اپنی قلیل تنخواہ کے لئے اپنی خوبصورت زندگی کو داو پر لگانے سے دریغ نہیں کرتے،یہ شدید زھنی دباو کی حالت میں اپنے فرائض انجام دیتے ھیں جسکے نتیجے میں کئی صحافی نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ھو چکے ھیں، یہ واحد طبقہ ھے جسے اپنی حفاظت کے لئے کوئی سہولت نہی دی گئی، وائرس سے بچاو کے لئے مخصوص لباس کو ان کی پہنچ سے بہت دور رکھا گیا ھے حالانکہ اگر پرائیویٹ شعبے سے خریداری کی جائے تو تین سے چار ھزا روپے میں ایک صحافی کی زندگی کو اسکے ساتھیوں اور خاندان سمیت محفوظ بنایا جاسکتا ھے، اگرچہ یہ رقم اتنی بڑی نہی ھے مگر اصل بات احساس کی ھے جسکا ھمارے معاشرےخصوصا”
حکومت میں فقدان پایا جاتا ھے، بات یہی پر ختم نہی ھوتی بلکہ بے سروسامانی کے ساتھ جب یہ لوگ رپورٹنگ کے لئے متاثرہ مقام جاتے ھیں تو راستے میں ناکہ بندیوں سے لیکر متاثرہ مقام تک انہیں پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کے اھلکاروں کے افسوسناک رویئے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ھے بسا اوقات ناشائستہ اور نازیبا جملے بھی برداشت کرنے پڑتے ھیں کیونکہ یہ انکی پیشہ ورانہ مجبوری ھوتی ھے،
کی۔پی کی حکومت نے متاثر ھونے والے کسی بھی صحافی کا مفت علاج اور خدانخواستہ فوت ھونے کی صورت میں دس لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ھے جو کہ میرے خیال میں منہ دھونے کے مترادف ھے،
ھم صحافی تنظیموں کی قیادت کو یہ تجویز دینگے کہ وہ اب مزید حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے کارکنوں کی زندگی بچانے کیلئے خود کوئی قدم اٹھائے اور سیاسی پارٹیوں اور سول سوسائٹی کا تعاون حاصل کرکے انہیں وائرس سے بچانے والا مخصوص لباس فراھم کرے اور متاثر ھونے کی صورت میں متعلقہ صحافی کے اھلخانہ کی مدد کے لئے پیکج کو حتمی شکل دے، اس مقصد کو پانے کے لئے اب شرم کو مٹی میں دبا دینا چاھئے بے شک یہ مٹی اپ حکومت سے مانگ سکتے ھیں،

اپنا تبصرہ بھیجیں