کرونا وبا اور ھمارے بچے تحریر : عمران ٹکر

ہیومن رائٹس واچ نے اپریل 2020 کو جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا کہ کرونا بحران کا دنیا بھر کے بچوں پر ممکنہ طور پر دور رس، طویل مدتی منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔ اور یہ اثرات تباہ کن ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ھے کیونکہ یہ اثرات طویل مدتی ھوں گے۔ چونکہ دنیا میں کہیں بھی جب بھی انسانی یا قدرتی آفات ھو گزرے ہیں اس نے بچوں اور خواتین کو لمبے عرصے تک متاثر کیا ہے۔ یعنی ان ممالک میں تعلیم کی شرح گرگیا ھے، چائلڈ لیبر ، چائلڈ بیگنگ، چائلڈ ٹریفکنگ، کم عمری/زبردستی کی شادیوں میں اضافہ دیکھا گیا ھے۔
جہاں تک بچوں پر کرونا کا براہ راست اثر کا تعلق ہے تو بڑوں کے مقابلے میں کم شدید علامات اور اموات کی شرح پائی جاتی ہے۔ لیکن کرونا عالمگیر وبا کا اثر محض صحت سے باہر ہے لیکن اس کے نتیجے میں دوسرے نتائج سامنے آتے ہیں۔ ڈیڑھ ارب سے زائد طلبہ و طالبات اسکول سے باہر ہیں۔ بڑے پیمانے پر نوکری اور کم آمدنی والے خاندانوں میں معاشی عدم تحفظ سے بچوں کی مزدوری، جنسی استحصال اور بچوں کی شادی کی شرح میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو قرنٹائن اور لاک ڈاون کے تحت گھروں تک محدود ھوگئے ہیں، وھاں گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کرونا سے منسلک گھریلو تشدد میں ‘خوفناک’ عالمی اضافے کی اطلاع دی ہے۔ چونکہ عالمی سطح پر کرونا وبا کے نتیجے میں ہلاکتوں میں اضافہ ھورھا ھے، لھاذا بڑی تعداد میں بچے یتیم استحصال اور زیادتی کا شکار ہوں گے۔ سب سے زیادہ وہ بچے متاثر ھوئے اور ھورھے ہیں جن کے امتحانات سر پر تھے اور ان کی تیاری مکمل تھی اور اب وہ مسلسل تذبذب کے شکار ہیں کہ آیا امتحانات ھوں گے، نہیں ھوں گے، کب ھوں گے اور کن حالات میں ھوں گے۔ یہ بچے ایک طرف اگر امتحانات کے گومگو کیفیت میں ہیں تو دوسری طرف وہ اس اعصاب شکن حالات میں مطالعہ سے بھی گریزاں ہیں۔ کیونکہ گھروں میں محصور ھوکر ایک طرف ان پر گھریلو ذمہ داریاں ڈال دی گئ ہیں جبکہ دوسری طرف جب وہ کرونا وبا کے اعداد وشمار، اموات میں اضافہ کی وجہ سے لاک ڈاون میں روزانہ کی بنیاد پر توسیع کو دیکھتے ہیں تو ان کی بے چینی اور اعصابی تناو میں مزید اضافہ ھو رھا ھے۔ دوسری طرف وہ بچے ہیں جن کے نتائج تو آگئے ہیں لیکن وہ نئے یونفارم، نئے کتابوں، نئے سکولوں میں داخلوں کی خوشی اچانک غم کی کیفیت میں تبدیل ھو گئ اور اوپر سے گرمیوں کی چھٹیاں بھی سر پر آگئی جبکہ یہ بچے دو مھینوں سے گھروں سے باھر نکلنے سے قاصر ہیں جنکا زیادہ تر وقت ٹی وی اور انٹرنیٹ پر گزر رہا ھے جس سے انکے صحت اور ذہن پر مزید منفی اثرات مرتب ھورھے ہیں ۔اگرچہ جب تک معاملات معمول پر واپس نہیں آجاتے کچھ اسکولوں نے آن لائن کلاسز کے ذریعے تدریس کا سہارا بھی لیا ہے لیکن اسکا دائرہ بڑا محدود ہیے اور زیادہ موثر ذریعہ بھی نہیں ہے۔
اسی طرح ایک بڑی تعداد ان بچوں کا ہے جو متوسط یا غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں بیشتر سکول جانے والے بچے بھی ہیں۔وہ مسلسل لاک ڈاون کی وجہ سے، سکولوں اور کھیل کے میدانوں کے بندش اور معاشی بدحالی سے چھٹکارا کے حصول کی خاطر بھیک مانگنے اور یا خوردونوش کی اشیاء بھیچنے سٹریٹ پر آگئے ہیں جہاں ان کو ایک طرف اگر کرونا کا سامنا ھے دوسری طرف سٹریٹ پر ذہنی، جسمانی اور جنسی زیادتی اور مزدوری نہ ملے تو والدین کی طرف سے ذہنی و جسمانی تشدد کا خطرہ بھی ھے
بہر حال دنیا کے سب سے کمزور طبقہ یعنی بچوں کے لیے یہ وبا ان کا پورا مسقبل تباہ کرنے کا شدید خطرہ ھے چنانچہ ایک جمہوری اور انسان دوست معاشرے میں جس میں سب سے اہم اسٹیک ہولڈرز بچے ھو وہاں ان حالات میں جہاں بچوں کی بقا، تعلیم اور صحت کا کہ خیال رکھنا اہم ہے وھاں تشدد، زیادتی، استحصال اور امتیازی سلوک سے حفاظت انفرادی اور اجتماعی طور پر وقت کا تقاضا اور بنیادی ضرورت ہے۔ جسکے لئے تمام سٹیک ھولڈرز کو ریاستی سرپرستی میں سر جوڑ کر ملکر جامع پالیسی مرتب کرنے کی اشد ضرورت جہاں بچے نہ صرف یہ کہ اس وبا سے محفوظ ھو بلکہ آنے والے اوقات میں بچوں پر جو منفی اثرات مرتب ھو ان سے بھی بچا جاسکے۔لھاذا بچوں کے تعلیم صحت اور تحفظ سے متعلق ایک واضح پالیسی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ھے جسے عملی جامہ پہنا کر اپنے بچوں کا مسقبل محفوظ بنایا جا سکے۔

عمران ٹکر

2 تبصرے “کرونا وبا اور ھمارے بچے تحریر : عمران ٹکر

اپنا تبصرہ بھیجیں