قبائلی علاقوں سے خبروں کے حصول میں مرجر کے باوجود مشکلات کیوں ہیں؟

ihsan.dawar1@gmail.com  احسان داوڑ
گذشتہ بیس سال سے زائد عرصے سے ہم قبائلی علاقوں سے رپورٹنگ کرتے چلے آرہے ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ امن میں خبریں نہیں ہوتیں کیونکہ خبریں ہمیشہ جنگ کی کوکھ میں پھلتی ہیں۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے کیونکہ خبر ہمیشہ کسی تصادم، یا ناخوشگوار واقعے کی ہی آتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پہلے قبائلی علاقوں میں خبروں کی نوعیت بھی مختلف ہو تی تھی زیادہ تر خبریں یا تو قبائلی جنگوں کی ہوتی تھیں اور یا پھر انفرادی دشمنیوں کی خبریں اخبار کی زینت بنتی تھیں لیکن دہشت گردی کے بعد خبروں کی نوعیت بھی بدل گئی اور اکثر وبیشتر خبریں دہشت گردوں اور سیکورٹی اداروں، خود کش حملوں، ڈرن حملوں، جاسوسی کے الزامات پر بے رحمانہ قتل، سکولوں کو بموں سے اُُڑانے اور آپس میں قتل و مقاتلے کے بارے میں آتی تھیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پہلے بھی اور بعد میں بھی قبائلی علاقوں میں خبروں کے حصول میں کئی ایک مشکلات پیش اتی تھیں۔ سب سے پہلے تو ایف سی ار کے تحت چلنے والے نظام میں اس وقت کا پولیٹیکل ایجنٹ عملاً بے تاج بادشاہ ہوا کرتا تھا جو نہ تو کسی کو جوابدہ ہوتا تھا اور نہ ہی انہیں کسی کا خوف ہوتا تھا کیونکہ وہ ایک ایسے مضبوط سلسلے کی کڑی ہوا کرتا تھا کہ جس کو آئین پاکستان آرٹیکل 247نے ہی تحفظ دیا تھا اور پاکستان کا قانون و آئین انہیں چھو بھی نہیں سکتا تھا۔ اس لئے ایف سی آر میں پورے قبائلی علاقوں میں کوئی ایک بھی رپورٹر یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ ان کو پولیٹیکل انتظامیہ کے کسی اہلکار نے یا کسی پی ار او نے ان دی ریکارڈ کوئی خبر دی ہو یا کسی واقعے کے بارے میں انہیں معلومات دی ہو۔ اُن دنوں قبائلی صحافی اپنے ذرائع سے ہی خبر کی تصدیق یا تردید کیا کرتے تھے۔اور کل کو جب اخبار میں خبر چھپ جاتی تھی تو پولیٹیکل انتظامیہ کو اگر ناگوار گذرتی تو مذکورہ صحافی کی شامت آجاتی اور ایف سی آر میں اسے اندر کیا جاتا تھا اور ایسی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن میں قبائلی صحافیوں کو بغیر کسی مقدمے کے جیل میں ڈالے گئے ہیں۔ پولیٹیکل ایجنٹ کے نیچے کا عملہ بھی ایسے ہی رویے کے حامل لوگوں سے ہوا کرتا تھا ہاں اگر کسی کے ذاتی دوست ہوتے تو وہ آف دی ریکارڈ کوئی نہ کوئی خبر دیتے تھے یا اگر کسی تحصلدار یا مُحر ر کو اپنے باس سے شکایت ہوتی تھی تو وہ نظام کے اندر کی سڑاند سے بھرپور خبریں لیک کیا کرتے تھے لیکن باقاعدہ طور پر پولیٹیکل انتظامیہ کی طرف سے کوئی پریس ریلیز یا خبر کے بارے میں معلومات کبھی بھی جاری نہیں ہوتی تھی بلکہ انتظامیہ کوشش کرتی تھی کہ کسی طرح بھی ہو خبر کو سنسر کیا جائے جس کیلئے متعلقہ صحافی کو دھمکیاں، مراعات اور نقد تک دئیے جاتے تھے جو کہ صحافی کے کردار اور اپنے پیشے سے اخلاص پر منحصر ہوا کرتا تھا۔
پھر جب قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہو ئی تو باقاعدہ فوج قبائلی علاقوں میں آئی اور ساتھ ساتھ خبریں بھی ساؤن کے برسات کی طرح مسلسل برسنے لگیں۔ ایسے میں ہر ایک قبائلی علاقے میں ایک عد د پی آر او یا کم ازکم میڈیا کے ساتھ معاملات کی ڈیلنگ کیلئے کوئی نہ کوئی تو موجود ہونا ضروری تھا لیکن یہاں بھی وہی پُرانی ریت و روایت برقرار رہی اور قبائلی صحافی بیچارے یا تو اپنے ذرائع سے معلومات اکھٹی کرتے تھے اور یا پھر طالبان کے ترجمانوں کے ساتھ روابط بڑھاتے تھے تاکہ خبروں کی فوری اور بروقت حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ وہ دور تھا جب الیکٹرانک میڈیا نئی نئی وارد ہوئی تھی اور کسی منہ زور گھوڑے کی طرح کسی کے قابو میں نہیں آرہی تھی بلکہ اچھی صحافت کا معیار ہی بریکنگ نیوز قرار دیا گیا جس میں اکثر اوقات خبروں کو باؤنس ہوتے بھی دیکھا گیا لیکن بریکنگ نیوز کے اس دوڑ میں کون یہ دیکھتا تھا کہ خبر ٹھیک ہے یا غلط۔ ایسے صحافتی اصولوں کا روزانہ جنازہ نکلتے دیکھا جاسکتا تھا مگر اس کو کنٹرول کرنا ملکی اداروں کیلئے خاصا مشکل ثابت ہوا۔
قبائلی علاقوں میں خبروں کو “دبانے”کا یہ وطیرہ کیوں تھا اور اب بھی ہے اس بارے میں پشاور میں موجود جنوبی وزیرستان کے ساتھ تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور ریسرچر صفی اللہ محسود کہتے ہیں کہ اگر کہیں پر آپ دیکھ لیں کہ خبر پرپابندی ہے یا خبر کو دبانے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کی جارہی ہے تو سمجھ لیں کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے اور جہاں تک بات قبائلی علاقوں کی تھی تو وہاں تو پورے کا پورا دال ہی کالا تھا جس کو چھُپانے کیلئے اس وقت کی انتظامیہ ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا کرتی تھیں یہاں تک کہ اگر بات لالچ سے نہ بن پاتی تو صحافیوں کو جیل یاترا بھی کیا جاتا تھا جس کو کسی قسم کا کوئی قانونی حق حاصل نہیں تھا۔ ایسی صورت میں صحافیوں کو علاقائی جرگے یا مشران کے ذریعے صلح نامے کے بعد ہی رہائی ملتی تھی۔
دو سال پہلے جب قبائلی علاقوں کا مرجر ہوا اور یہ علاقے باقاعدہ پاکستان کا حصہ بنے اور پاکستانی آئین کے تحت ائیں تو ایک امکان پیدا ہوا کہ اب شاید قبائلی علاقوں میں دیگر خامیوں کے علاوہ ہر ایک علاقے سے معلومات کیلئے بھی کوئی نہ کوئی مرکز موجود ہو جا ئیگا اور پہلے کی طرح صرف ایک ذرائع سے حاصل شدہ خبر پر تکیہ کرنے کے بجائے سرکاری ذرائع سے بھی معلومات کا حصول ممکن ہو جائے گا لیکن دو ڈھائی سال کا عرصہ گذرنے کے بعد بھی قبائلی علاقو ں میں کسی بھی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے باقاعدہ طورپر ایسا کوئی انتظام سامنے نہیں آیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کے ساتھ قریبی روابط رکھنے کیلئے مشہور پولیس فورس بھی سابق پولیٹیکل انتظامیہ کے مبارک نقش قدم پر چل رہی ہے اور میڈیا کے نمائندوں کو خبروں کی ترسیل میں جو مشکلات نوے کی دہائی میں اٹھانے پڑ رہے تھے وہی آج بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ ہم نے اس بارے میں سینئر صحافی اور صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے پاکستان میں کوارڈینیٹر اقبال خٹک سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جیو سٹریٹیجیک مفادات کے مقاصد اور خدشات اب بھی وہی ہیں جو مرجر سے پہلے تھیں، افغانستان کے بارے میں پالیسی بھی وہی ہیں اس لئے مرجر کے بعد بھی چیزیں کھُل نہیں رہیں بلکہ مزید سختی دیکھنے میں آرہی ہیں حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ مرجر کے بعد لوگوں کو اظہار رائے کی مکمل ازادی دی جاتی اور حکومت کو کسی چیز کو چھپا نا نہیں چاہئے تھا لیکن معاملہ اُلٹا چل رہا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو مرجر کا وہ فائدہ نہیں مل رہا جو ہونا چاہئے تھا۔
پاکستان ٹیلی ویژن میں کام کرنے والے سینئر صحافی عبدا لصبور خٹک کا اس بارے میں خیال ہے کہ قبائلی علاقوں میں صرف نام کی حد تک تبدیلی آئی ہے ورنہ نظام اب بھی وہی ایف سی آر والا چل رہا ہے اور وہاں کی انتظامیہ اور پولیس اب بھی سمجھتی ہے کہ ان علاقوں کو میڈیا کی نظروں سے جتنا بھی خفیہ رکھا جائے اتنا ہی بہتر ہے کیونکہ قبائلی علاقوں میں متعین سرکاری محکموں کے افسروں کیلئے یہ علاقے زمینی جنت کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ لوگ جب یہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں تو خوب مالامال حالت میں واپس آتے ہیں اس لئے یہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ میڈیا کو یہاں سے جہاں تک ممکن ہو دور رکھا جائے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی ناصر داوڑ نے اپنے تجربات بتا تے ہوئے کہا کہ کمال کی بات یہ ہے کہ نہ تو انتظامیہ کے اہلکار اور نہ ہی پولیس ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار میڈیا کے کسی نمائندے کی کال تک نہیں اٹھاتے جس کے باعث اکثر صحافی یا تو جو ملے لکھ لیتے ہیں اور یا پھر صحافتی اصولوں کے مطابق خبر کے دونوں سائیڈز پر سمجھوتہ کرکے یک طرفہ خبریں لگالینے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ ویسے ہی صحافیوں اور محکموں کے مابین دوریاں اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی صورت میں نمودار ہورہا ہے۔دور جدید میں اگر کسی آفسر یا کسی محکمے کو یہ غلط فہمی ہو کہ کسی خبر کو چُھپایا جا سکے گا تو اس سے نکل جانا چاہئے کیونکہ آجکل سوشل میڈیا پر پل پل کی خبریں اپ لوڈ ہوتی رہتی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی ہر خبر نہ تو خبر کی تعریف پر پورا اُترتا ہے اور نہ ہی قابل اعتماد ہو تا ہے۔ ناصر داوڑ کے مطابق قبائلی علاقے آجکل ایک ٹرانزیشن کے دور سے گذر رہے ہیں ایسے میں کسی غلطی کی کوئی گُنجائش نہیں۔ اب ضم شدہ اضلاع کے ہر ضلع کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے محکموں کو میڈیا کیلئے ایک ذمہ دار کو مخصوص کرانا چاہئے تاکہ صحافیوں کو بروقت، مصدقہ اور متوازن خبروں کی ترسیل میں مُسلسل پیش آنے والے مشکلا ت پر قابو پایا جا سکے اور اس طرح ایک صحتمند اور ذمہ دارانہ صحافت کو بھی فروغ حاصل ہو گا ورنہ اگر ہر ایک محکمہ ریشم کے کیڑے کی طرح اپنے خول میں بند ہوگا تو صحافیوں کو جہاں سے جو بھی معلومات مل جائینگے وہی میڈیا کی زینت بنائینگے پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں