میرا معمول ہے کہ صبح سویرے موبائل پہ واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کو چیک کرتا ہوں تاکہ تازہ ترین واقعات سے خو د کو اگاہ کر سکوں ۔ اج بھی حسب معمول واٹس ایپ چیک کیا تو پتہ چلا کہ رات کو میرعلی کے موسکی گاؤں میں اپنے ہی چچا زاد بھائیوں کے مابین زمین کے ایک ٹکڑے نے چار نوجوانوں کی قیمتی جانیں لے لی ہیں ۔ تب سے سوچ رہا ہوں کہ لکھوں تو کیا لکھوں ؟ اب بندہ سوچیں کہ ایک ہی خاندان کے مابین کیا زمین کا یہ قطعہ اتنی اہمیت اختیار کر گیا تھا کہ بندہ اس حد تک جائے ۔ اور پھر یہ کہ چچازاد اور سگے بھائی میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ ہمارے اکثر چچا زاد تو ایک ہی چاردیواری کے اندر رہتے ہیں ۔ اب یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیا اس پورے گاؤں میں کوئی ایسا بندہ موجود نہیں تھا کہ جس کو اس معاملے کی سنگینی کا احساس ہو ۔ چلو ایک لمحے کو مان لیتے ہیں کہ فریقین میں ضد اور انا کی دیوار کھڑی ہوئی تھی لیکن کیا اس پاس کے لوگوں کو اتنا بھی احساس نہیں ہوا کہ یہ لوگ کہاں کھڑے ہیں ۔میرے سامنے سوال یہ ہے کہ ہم اتنے بے حس کیوں ہو ئے ۔ ہمارا وہ روایتی جرگہ کہاں گیا جو زبردستی بھی کسی کو صلح نامہ کیلئے بٹھانے پر مجبور کرتے ۔ کوئی اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ ہمارے یہ چار گھبرو جوان اور اس جیسے سینکڑو دیگر تو چلے جاتے ہیں لیکن جس ٹکڑے پر وہ جان دیتے ہیں وہ تو وہیں پہ پڑا رہتا ہے ۔ اور پھر جانے والوں کے پیچھے ایک ایک پورا خاندان ہوتا ہے جن کے سینے غم کی تیروں سے چھلنی ہوجاتے ہیں اور ان زخموں کے مندمل ہونے کیلئے بہت وقت درکار ہوتا ہے ۔ ہم ایک لمحے کو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ہمارا جرگہ ناکام ہوچکا ہے ، ہمارے پاس وہ مشران نہیں رہے ، ہمارے اس نظام کو بھی پیسے کی حرص و لالچ نے الودہ کردیا لیکن اب تو ماشاء اللہ ہم مرج ہو چکے ہیں ، ہمارے ہاں انتظامیہ ہے ، پولیس ہے اور باقاعدہ عدالتیں ہیں ، ایک پوری حکومتی مشینری کے باوجود ہم کیوں اپنی بندوقوں کی زبان میں فیصلے کرتے رہے ہیں ۔ کب تک ہم یہ پھول پھول جوانوں کی لاشیں اٹھاتے رہینگے ۔ اور کب تک ہم زندگی کو بدست خودجہنم زار بنائے رکھے گے ۔ کیا ہم کبھی اپنی اس دو بیگہ زمین جس کو وزیرستان کہا جاتا ہے ، پر ارام سے سو سکے گے ؟؟ یا یوں ہی ایک دوسرے کو گراتے رہینگے ۔ اس کیس میں نہیں معلوم کہ قصوروار کون ہے اور بے قصور کون ہے ۔ تاہم میری ناقص رائے میں ان چار نوجوانوں کو اس معاشرے نے قتل کیا ہے ۔ ہم سب اس جُرم میں برابر کے شریک ہیں ۔ ایک دو دن ہاؤ ہو کرینگے اور پھر وہی وحشت اور درندگی کا راج ہوگا ۔ ہر کوئی دوسرے کی جیب سے پیسہ نکالنے کی تدبریں کرے گا ۔ ہم حیوانوں کی طرح صرف اپنے شکار کو دیکتھے ہیں ہمارے اندر کا انسان مرچکا ہے ۔ احساس ختم ہو چکا ہے اور بطور معاشرہ ہم ایک ناکام اور بیمار ذہن کے لوگ ہیں ایئے کہ اج ہم سب اس تلخ حقیقت کو تسلیم کریں کہ ہم جنگل میں حیوانات کے ایک ہجوم کی صورت میں رہ رہے ہیں جہاں انسانیت اور احساس نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ۔ میرے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات کم از کم مجھے تو ایسے ہی دکھائی دیتے ہیں ہوسکتا ہے کہ اپکا نظریہ میرے نظرئے سے مخلتف ہو لیکن مجھے اس نظارے میں تاریکی ہی تاریکی دکھائی دیتی ہے اور دور دور تک روشنی کی کوئی کرن دکھا ئی نہیں دے رہی کیونکہ ہر انے والا دن بد سےبد تر ہوتا جا رہا ہے ۔ اللہ ہماری حال پر رحم فرمائیں ۔ ۔
اہم خبریں
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments