قوم عیسی خیل مہمند کی فعال تحریک تحریر حضرت خان مہمند

قوم عیسی خیل جڑوبی درہ کے عوام میں اپنے حقوق کے حصول کیلئے بیداری قابل ستائش ہے
یہ قوم کی بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ وہ چند ایسے لوگوں کے نرغے میں تھی جن کو اپنی ذات کے آگے کچھ نظر نہیں آرہا تھا ان میں اعلی حکام اور افسروں سے ملاقاتوں کے دوران بات کرنے کا سلیقہ نہیں آتا تاہم وہ قوم کی امانت میں خیانت کے ماہر تصور کئے جاتے رہے
کہتے ہیں کہ اندھوں میں کانا راجہ یہی مصداق یہاں راست آتا ہے اندھوں کو ایک ایسا وکیل ملا جو وہ ناخواندو کو انگلی پر نچانے کا ماہر تصور کیا جاتا ہے
قوم عیسی خیل کی بڑی بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ اس نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی تقدیر کے فیصلے ایسے افراد کے حوالے کئے جو صلاحیتوں سے عاری ہیں جن کے ترجمان ان کے کہے جانے والے الفاظ کا اپنی مرضی کا ترجمہ کرتے چلے آرہے ہیں
ترجمان بھی ایسا باصلاحیت ہو جو قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والوں کو انگلیوں پر نچانے کے گر جانتے ہو یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ
قوم عیسی خیل میں باصلاحیت اور تعلیم یافتہ افراد کی کوئی کمی نہیں اور اللہ تعالی نے قوم کو باصلاحیت اشخاص سے نوازا ہے مگر اس کے باوجود مفادات کے حصول میں اندھے چند افراد قوم کو یرغمال بناکر اپنے ذاتی مفادات کے حصار سے نہیں نکل رہے ہیں
یہی افراد نہ صرف صلاحتیوں سے عاری ہیں بلکہ وہ امانت میں خیانت اور قومی دولت لوٹنے میں ان کی ثانی نہیں وہ جھوٹی قسمیں کھانے جھوٹ بولنے اور قوم کو دھوکہ دینے میں صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں
قوم کو دھوکہ دینے اور اپنے مفادات حاصل کرنے والوں کے بارے میں جب تاریخ لکھی جائے گی تو انھیں غدار کا لقب ملے گا
یہ چند مفاد پرست قوم کے دامن پر بد نما دھبہ ہیں
یہ بات بھی تاریخ کا حصہ رہے گی کہ قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنے والوں میں سے بعض اس قدر سادہ تھے کہ وہ محض ہاں میں ہاں ملانے کیلئے تھے قوم کی دولت کو مادر شیر سمجھ کر لوٹنے والوں کی تاریخ ان کی اولاد کیلئے باعث ندامت ثابت ہوگی
قوم کے ساتھ کلھواڑ کرنے والوں پر اب زمین تنگ ہوتی جارہی ہے
یہ تاریخ کا حصہ رہا ہے کہ جب کسی نے قوم کے ساتھ غداری کی ہے وہ ہمیشہ کیلئے امر ہوئے ہیں اب وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے
بدترین تاریخ دہرانے والوں کے دن گنے جاچکے ہیں وہ نہ صرف رسوا او ذلیل ہورہے ہیں بلکہ وہ تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہوجائیں گے یہ ایک اٹل حقیقت ہےکہ قوم کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کی کارستانیاں ان کی اولاد کیلئے طعنہ کا باعث بنی رہیں
سفید داڑھیاں ہاتھوں میں تسبیح مساجد میں لمبی لمبی نمازیں اور قوم کے مفادات کے درد کی کہانیاں سنانے والوں نے قوم کے ساتھ بد اخلاقی مالی بدعنوانی اور قومی وسائل لوٹنے سے متعلق جو اجتماعی زیادتی کی ہے اب وہ تاریخ کا سیاہ باب کا حصہ بنتا جارہا ہے
ظلم جبر کرکے قوم کے وسائل لوٹنے اور جرگوں میں رشوت لینے والوں کے خلاف نہ صرف کلمہ حق بولنا افضل جھاد ہے بلکہ ان کی راہ میں رکاوٹ بننا دلیری اور بہادری کی دلیل ہے زندگی بھر میں
ایک تعلمیافتہ اور قلم کی حرمت کی جنگ لڑنے والے صحافی کی جانب سے قوم کے حقوق کی خاطر جان کی پراوہ کئے بغیر میدان میں کود پڑنا افضل جھاد سے کم نہیں
قلم کی حرمت کی جنگ لڑنے والے صحافی نے جب دھمکیوں کے بعد اپنی حفاظت کیلئے پستول نکالا تو وہ دن ان کیلئے قیامت سے کم نہیں تھا
وہ صحافی حضرت خان مہمند تھے انھیں اس لئے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں کہ وہ قومی غداروں کے سامنے چٹان بنے وہ دن قلم کے امین کیلئے قیامت سے کم نہیں تھا جب وہ زندگی میں پہلی بار قوم کی خاطر اسلحہ اٹھانے پر مجبور ہوئے جب وہ خود تاریخ کے اوراق لکھ رہے تھے تو ان کی آنکھوں سے آنسو سمندر کی طرح بہنے لگے
آخر قوم عیسی خیل پر ایسی کونسی قیامت ٹوٹ پڑی کہ اس میں ایماندار باصلاحیت اور قوم پر مرمٹنے والے ختم ہوئے
اللہ تعالی نے لائق شاہ ، ملک محمد انور ، حاجی شاہ مونڈ ، فضل الرحمان ، گل رحمان ، گل افضل، افضل ،عالم ماما ،گل مان خان ، شیر زمان ، سعد اللہ ،خانزادہ خان ، ملا محمد شاہ ،جان سید حاجی غلام ، فضل الرحمان، گل رحمان فضل الرحمان اور ان کے دیگر ساتھی قوم کیلئے ابر رحمت ثابت ہوئے انہوں لنے ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کے ظلم کا راستہ روکا اور ان کے نا انصافیوں کے سامنے بند باندھ کر وقت کے فرعونوں کوللکارا
قوم کے ساتھ ظلم کرکے اس وسائل لوٹ رہے تھے تو اس وقت ان کی فرعونیت اپنے عروج پر تھی ان ہوں گمان میں نہ تھا کہ ان کے ظلم کے سامنے کوئی باندھنے کیلئے نکلے گا جب ان کی فرعونیت کو خدشہ پیدا ہوا تووہ اس قوم کے پاوں پڑنے لگے جس کو وہ جوتے کی نوک پر نہیں رکھتے
خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ قومی وسائل لوٹنے والوں کے خلاف آواز اٹھی تو تعلمیافتہ اور قومی جذبے سر شار نوجوان اپنے بڑوں کے کندھے سے اندھا ملاکر میدان میں اترے
ان نوجوانوں کا جذبہ دیدنی ہے وہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کے جذبے کے ٹو پہاڑ سے بلند ہیں ان کی حوصلہ افزائی نے بڑوں کیلئے آگے بڑھنے کی راہ ہموار کردی اب تو جوانوں نے قوم کی خدمت کا بیڑہ اور قوم سے کھلواڑ کرنے والوں سے نمٹنے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں اب حق کی راہ میں جو بھی رکاوٹ بنے گا وہ سمندر میں خسوخاشاک کی طرح بہے گا اب ظلم کے سمندر کی تباہ کاریاں تھمیی گی
اب روشن مستقبل قوم عیسی خیل کا مقدر بنے گا
قوم عیسی خیل میں ظلم کے خلاف چٹان کی طرح کھڑے ہونے والوں کی تاریخی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی جس کیلئے قلم کی حرمت کا پاس رکھنے والے کی جان کی قربانی بھی ہوسکتی ہے لیکن تحریک تھمے گی نہیں بلکہ ان کے خون سے تحریک اپنے منزل مقصود تک پہنچنے میں ضرور کامیاب ہو گی اب اس تاریخی جدوجہد میں قوم ان قومی غداروں کو نہ صرف بے نقاب کرنے میں مشران اور نوجوانوں کو ساتھ دینا ہوگا بلکہ اسے قومی تاریخ کا حصہ بننا پڑے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں