”آگئے بندکرو،چلے گئے کھول دو“ تحریر:ہارون رشید

”رالُو اوئے“ لاڑل“،”آگئے “،”چلے گئے “،”دکانیں بندکرو “چلے گئے اب کھول دو “۔۔آج تک ہم نے سیاسی جماعتوں کے ہی نعرے سنے تھے لیکن یہ وہ نعرے ہیں جو اس وقت تمام بازاروں میں لگ رہے ہیں ۔دکاندار ضلعی انتظامیہ کے افسران اور پولیس کو دیکھتے ہی دکانیں بنداورانکے جاتے ہی دکانیں کھولنے کی آوازیں لگاتے ہیں ۔پشاورمیں ڈیڑھ ماہ سے جاری لاک ڈاﺅن میں دکاندارکوروناسے بچاﺅکی حکومتی ہدایات کو خاطرمیں لائے بغیر اپناکاروباراب چوری چھپے کر ہیں۔ دکانوں کے شٹرگرانے اوراٹھانے کا شور دن بھر کانوں میں اس طرح گونجتا ہے جیسے کسی نے کان کے قریب ٹرک کا زوردارہارن بجادیاہو ۔کوروناوائرس نے اپنے پنجے اس طرح گاڑدئیے ہیں کہ اب ماہرین صحت ،سائنسدان، ماہرفلکیات، سیاستدان سمیت کسی کویہ علم نہیں کہ ملک کو اس عفریت سے کب چھٹکاراملے گا ۔22مار چ سے پشاورمیں جاری لاک ڈاﺅن کوایک ماہ گزرنے کے بعد دکانداروں کاصبرتمام ہوگیا اورانہوں نے اپنی دکانوں کے شٹرکھول دئیے۔ ہشتنگری،چوک شادی پیر،جھنڈابازار،کریم پورا، شاہین بازار،مینابازار، جہانگیر پورہ،کوچی بازار،کوہاٹی اوراندرون شہرمیں واقع چھوٹے شاپنگ بازاروں میں بنددکانوں میں خریدوفروخت کاسلسلہ جاری ہے۔دکانوں کے شٹرکھلتے ہی گاہک داخل ہوجاتاہے اورباہر پہرے پر مامور بندہ محتاط اندازمیں ادھرادھرنگاہیں دوڑاتاہے ۔بازارکے ایک سرے سے جب”آگئے“کی آوازآتی ہے تو ہر طرف بھونچال آجاتاہے۔ دکانوں میں لائٹیں بند،خریداری تھم جاتی ہے۔ جبکہ کھلے بازار بندہوجاتے ہیں ۔ایسے میں اگر کسی دکاندارکی شامت آجائے تو اسے حوالات کی ہواکھانے سمیت پانچ ہزار تک کاجرمانہ کردیاجاتاہے ۔لیکن کچھ دکاندارایسے بھی ہیں جوبلاروک ٹوک اپنا کاروبارکررہے ہیں ۔یہ خوشامدی یابااثرافراد کے زمرے میں آتے ہیں ۔دکانوں کے باہر پہرہ دارکہتے ہیں کہ وہ سارا دن اپنی دکانوں کے باہر کھڑے رہتے ہیں انکی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ جیسے کوئی چور،چوری کی نیت سے دکان کے پاس کھڑاہو اور پولیس کے خوف سے تالے کوہاتھ نہ لگا سکتا ہو ۔سارادن آوازیں کسنے اوردکانیں کھولنے اوربندکرنے پرلگ جاتاہے۔ گاہک آتے ہیں اور انتظارکرکرکے واپس لوٹ جاتے ہیں ۔پاکستان میں جاری صورتحال نے ایک اورخطرے کی گھنٹی بھی بجادی ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسدعمرفرماتے ہیں کہ کوروناکی صورتحال کے باعث ملک میں دو سے 7 کروڑتک افراد خط غربت کے نیچے جاسکتے ہیں جبکہ ایک کروڑ80لاکھ لوگوں کے بیروزگار کاہونے کاخدشہ ہے ۔ جھنڈابازارمیں کپڑوں کے تاجر جاوید صافی کہتے ہیں کہ ہرسال عیدکے دنوں میں ان کاکاروبار بام عروج پرہوتاہے گاہکوں کی بڑی تعدادبازارآتی ہے لیکن اس مرتبہ لاک ڈاﺅن کی وجہ سے بمشکل ہی انکاکاروبار چل رہاہے۔روزانہ70سے80فیصدکے نقصان کاسامناہے۔ دکان کھولیں گے نہیں تو کھائیں گے کیا؟۔۔بازاروں میں گشت کرنےوالے پولیس اہلکاربتاتے ہیں کہ انہیں تاجروں کی مشکلات کااحساس ہے لیکن کورونا کی عالمی وبا سے نمٹنے کاابھی واحدحل سماجی دوری ہے دکانداروں کےساتھ کافی حد تک نرمی کی جاتی ہے لیکن جب بازاروں میں رش بڑھتا ہے تو انہیں مجبوراًایکشن لیناپڑتاہے کیونکہ یہاں نوکری بھی بچانی ہوتی ہے۔ نجانے یہ مسئلہ مزید کتنا عرصہ چلے گا اس کاجواب تو فی الحال کسی کے پاس نہیں۔لیکن اس کورونا کے ہاتھوں بازاروں میں پولیس اور دکانداروں کے درمیان آجکل خوب آنکھ مچولی لگی رہتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں