درد بھری کہانی، مجھے بھی کورونا کامریض ظاہرکرکے پلاسٹک میں میری میت لپیٹ کرلواحقین کے حوالے کردینگے، عبدالواحد

Author Haroon Rashid

تحریر:ہارون رشید

شدیدبخارمیں مبتلاہوں سانس لینے میں تکلیف ہے ،کھانسی بھی ہورہی ہے ،بسترسے اٹھانہیں جارہا مکان کے کمرے کی چاردیواری میں عجیب خیالات آرہے ہیں سرکاری ہسپتال گیاتو ڈاکٹرزانجکشن دے کر کوروناکامریض ظاہرکرینگے اورپھر پلاسٹک میں میری میت لپیٹ کرلواحقین کے حوالے کردینگے۔یہ کہانی چارسدہ روڈکے رہائشی ضعیف العمر عبدالواحدکی ہے جوگزشتہ کئی دن سے اپنے اہل وعیال کے درمیان گھرمیں علالت کی وجہ سے اپنی حالت زاراورغریبی پرآنسو بہارہاہے ۔نہ جانے اتنے کتنے بے سہارا اور غریب انسان ہونگے جو عالمی دباءکے نتیجے میں حفاظتی طو رپر کوروناٹیسٹ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور گھروں پر ہی اپنی موت کاانتظارکررہے ہونگے ایسے افرادنہ صرف اپنے اہل وعیال کی صحت کےلئے خطرے کاموجب بن سکتے ہیں بلکہ معاشرے کے دیگر افرادتک وائرس پھیلنے کابھی اندیشہ رہتاہے ۔یاد رہے کہ پاکستان میں کوروناوائرس کی موجودگی کوتقریباًڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ بیت چکاہے تادم تحریرملک میں 18ہزارلگ بھگ افراداس وباکاشکارہوچکے ہیں جبکہ400سے زائد اس وائرس سے لڑتے زندگیاں گنواچکے ہیں کوروناکے خوف کے سایئے اتنے گہرے ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کےساتھ ملنے سے احترازکررہے ہیں لیکن دوسری طرف ایک ایسا پہلوبھی ہے جوحالات کی سنگینی کوسمجھنے سے قاصر ہے ، کورونا سے متاثرہ اورجاں بحق افرادکی بڑی تعداد پچاس سے زائد ہے ،دیکھنے میں آرہاہے کہ اس عمر کے افرادلاشعوری طور پرعلاج کی غرض سے ہسپتال جانے سے گریزاں ہے اورہسپتال کارخ تب ہی کرتے ہیں جب پانی سرسے گزرچکاہوتاہے ۔58سالہ عبدالواحدمزیدبتاتے ہیں کہ وہ انتہائی غریب ہے بیروزگاری کاشکارہوں بہترین علاج کی استطاعت نہیں رکھتا رشتہ دار ٹیلیفون کرکے احوال پوچھتے ہیں اورنصیحت کرتے ہیں کہ جاکر اپناکوروناٹیسٹ کروالو!،،،اس نے کہا کہ کورونا کی خوف سے تیمارداری کےلئے کوئی گھرنہیں آتا بس فون کال کرکے ہی صحت کاپوچھتے ہیں،غیرمستند لیبارٹری ٹیسٹ کے مطابق مجھے ٹائیفائیڈ ہے تاہم اگر سرکاری ہسپتال گیا تو ڈاکٹرزمجھے زہریلی سپرے یا انجکشن دے کرکورونامریض ظاہرکردینگے اوراس کے بعد ایک پلاسٹک میں میری میت ہوگی اور لواحقین اسے لینے ہسپتال آئینگے،اخون آبادپشاورکے ایک اور نوجوان حیات جن کے حال ہی میں چچافوت ہوئے، نے بتایاکہ انکے اَنکل کاسینہ خراب تھا جسکے باعث انہیں زورکی کھانسی تھی اورسانس بھی بندہورہاتھا حیات آبادمیڈیکل کمپلیکس لے جایاگیاجہاں ان کو آئسولیشن میں رکھاگیا آئسولیشن وارڈ کی کہانی ہی کچھ اور تھی، ہوکاعالم تھا ہرطرف خاموشی طاری تھی تیماردارکومریض کے پاس آنے نہ دیاجاتا ڈاکٹرچھ فیٹ کے فاصلے سے صحت عامہ کے امورانجام دے رہے ہوتے ہیں اورمریض بیڈمیں لیٹااپنے ساتھ ہونےوالے سلوک سے ایساخوف محسوس کررہاہوتاہے کہ جیسے موت سے پہلے اسے موت نے گھیرلیاہو ۔حیات نے مزیدتفصیل دیتے ہوئے کہاکہ اسکے خاندان کے مزید کچھ لوگوں میں بھی کوروناعلامات ظاہرہوچکے ہیں لیکن ہسپتال کے خوف وہراس کے ماحول کی بجائے انہوںنے خودکواپنے تئیں گھرپر قرنطین کیاہوا ہے پیناڈول اوراینٹی بائیوٹک ادویات استعمال کررہے ہیں اپنی بات جاری کرتے ہوئے اس نے مزید بتایاکہ ہمارے ہسپتالوں کامعیار ایسا نہیں کہ مریض کوروناوباءسے لڑتے ہوئے صحت یاب ہوسکے خدانخواستہ اگرکوئی کوروناسے فوت ہوجائے تومریض کی حفاظتی تدابیرکےساتھ تدفین کا لمحہ انکے پیاروں کےلئے اذیت ناک ہوتاہے اس لئے سب کی یہ ترجیح ہوتی ہے کہ کوروناسے مرناہی ہے تو قبرسے پہلے اسکی آخری آرام گاہ اسکاگھرہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں