پشاور کے پولیس اسٹیشن میں 14 سالہ بچے کی موت انسانیت بھی شرماگئی۔ عمران ٹکر

دسمبر 2017 ء کے بعد سے پاکستان نے نو عمروں کے حصول انصاف کو بہتر بنانے کے لئے کافی کوششیں کی ہیں، کہ انصاف کے عمل کے ہر مرحلے پر بچے کو بہترین مفاد کی ضمانت دی جائے۔ آج تک خیبر پختونخوا میں مزید چار کے ساتھ 9 چائلڈ کورٹس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ مزید برآں ملک کے تمام اضلاع میں جی بی وی عدالتوں کا جال ڈال دیا گیا ہے۔ دسمبر 2017 سے نومبر 2020 تک، 1921 بچوں نے بچوں اور صنفی حساس انصاف کی خدمات تک رسائی حاصل کی ہے۔ 360 کے قریب سٹیک ھولڈرز کو بچوں کے حقوق، بچوں کے تحفظ، صنفی مساوات اور بچوں کے انصاف پر تربیت دی گئی۔ ان خصوصی عدالتوں کی اوسط سزا کی شرح تقریبا 6-7 ٪ (2-3 ٪ کی قومی اوسط سے زیادہ ہے) جبکہ انصاف سے مستفید شدہ افراد نے ان عدالتوں میں حصول انصاف کے عمل کو نہ صرف سراھا ھے بلکہ اطمینان کا اظہار بھی کیا ھے
مزید برآں، ان پائلٹ چائلڈ کورٹس میں کم عمر ملزمان کی اوسط ضمانت کی شرح 73 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو قانون سے متصادم بچوں کو ہر ممکن حد تک جیلوں میں قید سے دور رکھتا ہیں۔
ان تاریخی سنگ میل کا اعتراف اقوام متحدہ کے خصوصی ریپورٹیور نے بچوں پر تشدد پر سیکرٹری جنرل نے بھی کیا ہے، لیکن پشاور میں پولیس کسٹڈی میں 15 سالہ بچے کی موت نے تمام سٹیک ھولڈرز کو ہلا کے رکھ دیا۔
نو عمروں کے حصول انصاف کے نظام کا قانون 2018 سے ملک میں نافذ ھے
یہ قانون اصلاحی انصاف کے حصول پر یقین رکھتا ھے اور ریاستی اداروں پر زور دیتا ہے کہ وہ ثانوی استحصال سے بچنے کے لئے ایک مخصوص طریقہ کار پر عمل کریں۔
جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کے سیکشن 5 (1) کے مطابق
-گرفتار شدہ بچے کو آبزرویشن ھوم میں رکھا جائے گا جبکہ متعلقہ پولیس اسٹیشن کے انچارج جلداز جلد گرفتار بچے کے سرپرست کو آگاہ کریں، اور اسے بچے کی پیشی کے عدالت، وقت، تاریخ اور نام سے آگاہ کرے گا
۔ اور ساتھ ساتھ متعلقہ پروبیشن آفیسر کو بھی مطلع کریں گا کہ وہ بچے سے متعلق معلومات اکٹھا کرے تاکہ عدالت میں پیش کئے جاسکے جو انکوائری اور چائلڈ کورٹ میں مددفراہم کرسکے۔
سیکشن 2 (پی) واضح کرتا ہے کہ قانون میں آبزرویشن ھوم کا مطلب ایک ایسی جگہ ہے جہاں پولیس بچہ کو گرفتاری کے بعد عارضی طور پر رکھ سکے۔ جہاں انکو ھر قسم کا تحفظ فراھم ھو۔
مزید برآں، جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 میں کہا گیا ہے کہ:
-“حکومت جووینائلز کے لئے آبزرویشن ھومز اور بحالی یا اصلاحی مراکز قائم کریں، جبکہ خواتین جووینائل کے لئے اسطرح الگ الگ مراکز ھو۔
ایکٹ کے سیکشن 20 (2) میں کہا گیا ہے: “حکومت کسی آبزرویشن ھوم یا کسی کم عمر بحالی مرکز کو نوٹیفائ کرسکتی ہے جو سرکاری یا بیشک غیر سرکاری ھو۔
مزید برآں، جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کے سیکشن 6 میں کہا گیا ہے: “… اس صورتحال میں نوعمر کو کسی مناسب شخص یا نوعمر بحالی مرکز کی تحویل میں یا پروبیشن آفیسر کی نگرانی میں بھی رکھا جائے گا۔ مجرموں کو کسی بھی حالت میں پولیس کی تحویل میں پولیس اسٹیشن یا ایسے مقدمات پر جہاں بچے کو خطرہ ھو، جیل میں نہیں رکھے۔
جوینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کو سامنے رکھتے ھوئے
– بچوں اور خواتین قیدیوں کے لئے آبزرویشن ھومز اور اصلاح/فلاحی مراکز کا قیام صوبائ حکومت کی اولین قانونی ذمہ داری ھے۔
پاکستان کے تمام صوبوں میں اسپیشل پولیس یونٹ کا قیام جو قانون سے متصادم بچوں کے معاملات کو خصوصی طور پر نمٹائے تعینات کئے جائیں۔
بچوں اور خواتین کے حصول انصاف کی خاطر تمام متعلقہ اداروں کے استعداد کار بڑھانے، شراکت اور ربط سے کام کرنے کی اشد ضروری ھے کہ بچہ جہاں کہیں بھی ھو زیادتی سے محفوظ دوستانہ ماحول میں قانون کے مطابق حصول انصاف مل سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں