کیا وزیرستان کی خواتین کو تعلیم کا حق حاصل نہیں؟ تخریر ۔عامر خان داوڑ

نپولین نے کہا تھا ” تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا”اس قول سے تعلیم اور خصوصا خواتین کی تعلیم کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔لیکن شاید ہم آج تک اس کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکے یا جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتے۔
شمالی وزیرستان ایک پسماندہ قبائلی علاقہ ہے، یہاں کے اکثر لوگ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔زیادہ تر لوگ اپنے خاندان کی کفالت کے لئے متحدہ عرب امارات میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ یہاں پر تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔ جبکہ خواتین کی شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیونکہ پورے شمالی وزیرستان میں لڑکیوں کے لئے ایک ہی گرلز کالج یہاں کے ہیڈ کوارٹر میران شاہ میں واقع ہے۔جبکہ کوئی پرائیویٹ گرلز کالج یا سکول موجود نہیں۔
2004 سے قبل لڑکیوں کی شرح خواندگی شمالی وزیرستان میں کچھ بہتر تھی۔۔ میران شاہ بازار میں ایک فعال سرکاری ہائی اسکول قائم تھا، اور مقامی طالبات بغیر کسی رکاوٹ کے یہاں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ پھر وزیرستان کی بدقسمتی کا آغاز ہوا۔معمولات زندگی شدید متاثر ہو گئے۔ دیگر اداروں کی طرح تعلیمی ادارے بھی تباہ ہوگئے۔ جس سے تعلیمی نظام مفلوج ہو گیا۔
میرا تعلق بھی وزیرستان ہے۔ ایک وقت تھا کہ وزیرستان کی صورتحال بہتر اور ماحول پرسکون تھا۔ تاہم حکومتی عملداری نہ ہونے کے برابر تھی۔لیکن پھر حالات نے اچانک ایسی انگڑائی لی کہ باشعور اور ہنستے بستے لوگوں کا یہ مسکن اجڑ گیا۔اور لوگوں کے چہروں سے مسکراہٹ غائب ہو گئی اور پریشانیوں اور خوف نے انہیں آن گھیرا۔ یہ 2006 کی بات ہے اس وقت میں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔میران شاہ کا واحد گرلز ہائی سکول ہمارے راستے میں آتاتھا۔ایک دن صبح سکول جاتے ہوئے کیا دیکھا کہ کچھ لوگ اس پر ایسے حملہ آور ہوئے، کہ جیسے یہ علم کی روشنی پھیلانے والا ادارہ نہیں بلکہ اسرائیل کا فوجی کیمپ ہو۔ ان تعلیم دشمن عناصر کے سامنے ہم قبائلی لوگ بہت کمزور ثابت ہوئے۔ ہم اس اکلوتے ادارے کو نہیں بچاسکےاور بے بسی کے عالم میں تباہی کا نظارہ دیکھتے رہ گئے۔بچانا تو درکنار ہم کھل کر اس علم کی روشنی بجھانے پر افسوس بھی نہیں کرسکتے تھے۔ گو کہ شمالی وزیرستان میں تعلیمی اداروں کو دیگر قبائلی علاقوں سوات دیر کی طرح نقصان نہیں پہنچا تھا، لیکن یہاں تعلیم کے خلاف ایک ماحول بن گیا اور تعلیمی نظام کو مفلوج کردیا گیا۔

یہیں سے وزیرستان کی بدقسمتی کا آغاز ہوا۔پھر اس کے بعد وزیرستان سولہ سترہ سال تک مسلسل بد امنی کا شکار رہا۔اس دوران درجنوں چھوٹے بڑے فوجی آپریشنز ہوئے، لیکن شاید بدامنی کے ساتھ رہنا اب ہمارے نصیب میں لکھا جا چکا ہے۔ آخر میں سب سے بڑا آپریشن ضرب عضب جون 2014 میں ہوا۔آپریشن کے بعد 2016 میں بے گھر ہونے والے افراد کی واپسی شروع ہوئی۔ واپسی کے بعد علاقے میں مسائل ہی مسائل تھے۔ مکانات تباہ حال،دکانوں کانام ونشان بھی نہیں تھا، معاشی بدحالی عروج پر پہنچ گئی تھی۔یہاں کے باسیوں نے نئے سرے سے برباد وزیرستان کو آباد کرنا شروع کردیا، اس وقت یہاں سب سے بڑا مسئلہ تعلیم کا تھا۔لڑکیوں کی تعلیم تو کجا لڑکوں کا تعلیمی سلسلہ بھی بری طرح متاثر ہوا تھا۔ پورے شمالی وزیرستان میں دو ہی کالجز ڈگری کالج میرعلی اور پوسٹ گریجویٹ کالج میرانشاہ کی عمارات تباہی و بربادی کی تصویر بن چکی تھیں۔ میرعلی کالج کی خوش قسمتی یہ تھی کہ یہاں کی عمارت سڑک کنارے واقع ہونے کی وجہ سے جلدی مرمت کر دی گئی، جو پاک فوج کے جوانوں کے زیر استعمال تھی۔ البتہ میران شاہ کے پوسٹ گریجویٹ کی عمارت کسی اصطبل سے کم نہ تھی۔ اب کہیں جا کر میرانشاہ کالج کی دوبارہ مرمت ہوئی ہے۔میرانشاہ بازار کے وسط میں جو گرلز ہائی اسکول تھا حکومت نے اس کی عمارت کو تعمیر تو کردیاہے تاہم 3 سال بعد بھی اسے لگائے گئے تالے نہ کھل سکے، یہ سرکاری گرلز ہائی سکول ابھی تک یہاں کی بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے کام نہ آسکا۔ تاہم میرانشاہ کی سول کالونی میں واقع گرلز سکول فعال ہے،لیکن اس سکول نے شمالی وزیرستان کی طالبات کا بوجھ بھی اٹھایا ہوا ہے۔ یہ سکول اکیلے پورے ضلع کی طالبات کا بوجھ برداشت کرنے کا قابل نہیں ہے۔میران شاہ بازار میں واقع سکول کا عملہ بھی سول کالونی کے سکول میں ڈیرے ڈالےہوئے ہے، سول کالونی سخت سکیورٹی کے حصار والے علاقے کینٹ میں واقع ہے، جہاں وزیرستان بھر کی طالبات کا پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ سکول جانے والی طالبات کا چیک پوسٹوں سے گزرنا بھی تکلیف دہ امر ہے، اکثر والدین قبائلی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی بچیوں کو ان چیک پوسٹوں کے سامنے سے گزارنے کیلئے تیار نہیں ۔اگر کوئی مجبوری کے تحت تیار ہو بھی جائے تو ایک سکول میں ضلع بھر کی طالبات کس طرح آئیں گی ، ایک چھوٹی سی عمارت میں کتنی بچیاں پڑھ سکیں گی؟

میرانشاہ کے تاجر رہنما حاجی سید حلیم نے دی خیبر ٹائمز کو بتایا، کہ یہاں کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ، رکن صوبائی اسمبلی اور صوبائی وزیر اقبال وزیر اس ساری صورتحال کا جائزہ لیں اور میران شاہ بازار میں تیار عمارت پر مشتمل گرلز ہائی اسکول کو فعال بنانے کیلئے خیبر ہختونخوا اور ضلعی سطح پر حکام سے بات کریں تاکہ یہاں کی بچیاں بھی زیورتعلیم سے آراستہ ہوسکیں، اور یہاں کی ذہین بچیاں بھی وطن عزیز کے کام آسکیں؟ محکمہ تعلیم کے ذرائع کے مطابق اس سکول کا تمام عملہ موجود ہے جو تنخواہیں بھی وصول کر رہے ہیں،لہذا کسی قسم کے اضافی اخراجات نہیں اٹھانے پڑیں گے۔اس لئے اس سکول کو فعال کرنے کے لئے جلد سے جلداقدامات اٹھانے چاہئیں۔تاکہ یہاں کی بچیوں کا مستقبل روشن ہو سکے۔
آج کی یہ بچیاں کل تعلیم یافتہ مائیں بنیں گی تو ایک بہتر قوم تیار کرینگی۔ تعلیم یافتہ مائیں ایک یونیورسٹی کی مانند ہوتی ہیں۔اگر حکمران دہشتگردی کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں، تو یہاں تعلیم یافتہ مائیں بنائیں تاکہ یہ کل باشعور قوم تشکیل دے سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں