سیکندرمومند اور بیٹا چالان مومند صاحب؟ آفاقیات، رشیدافاق

پشتو زبان کے ایک بہت بڑے شاعر سیکندر مومند گذرے ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ موصوف بہت بڑے ادیب و دانشور تھے،انہوں نے اپنے حصے کی دو چیزیں اپنی وراثت میں چھوڑی ہیں، ایک اپنی شاعری اور دوسرا اپنا بیٹا چالان مومند،جس طرح اس کی شاعری نرالی، انمول اور لاجواب تھی، اسی طرح موصوف کا بیٹا بھی اپنی ذات میں صوبہ ہی نہیں بلکہ ریاست ہے،چالان مومند ہر اس شخص کی چالان کرتا ہے جو ان سے ملتا ہے، کیونکہ موصوف اپنی ذات میں رحمن بابا سے بڑے شاعر ہیں، خوشحال خان بابا کو وہ گندے ذہن کا مالک شاعر مانتے ہیں، ستر غنی بابا اور عظیم اشرف مفتون کو وہ سولی پر چھڑانے کے لائک سمجھتے ہیں، حامد میر اور کامران خان کو وہ صحافی نہیں بلکہ چوکرے سمجھتے ہیں، برناڈ شاہ کو وہ خود ایک ڈرامہ اور شکسپئر کو کنجر سمجھتے ہیں، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ چالان صاحب خود کچھ بھی نہیں سوائے کھانے کی مشین کے،وہ ہر دعوت میں ایسے جاتے ہیں جیسے شادی میں دلہن سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے، ان کی ذات شریف کئی مربع ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے، وہ جس مشین پر اپنا وزن کرنے کے لئے چھڑ جاتے اس مشین کے سارے پر پُرزے ڈر کے مارے بھاگ جاتے ہیں، ان کی آدائیں ایک دانشور کی طرح جبکہ چلنے کا سٹائل بطخ کی طرح ہے،
موصوف ہر دعوت میں اپنے ساتھ تین چار مشٹھنڈے لیکر جاتے ہیں، ایک تو اسے نوالے بنابناکر ان کے ہاتھ میں چپکے سے رکھتے ہیں جسے بعد میں موصوف اپنے منہ میں گھاس کاٹنے والی مشین کی طرح ڈالتے ہیں، اور دوسرا وہ لوگ ان کے ہر شعر پر داد دیکر ہنستے رہتے ہیں،
موصوف سے میری ملاقات ایک تقریب میں ہوئی، پہلے تو میں اسے کسی ہاتھی کا بیٹا سمجھ بیٹھا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ موصوف سیکندرمومند کے بیٹے شریف ہیں، سلام دعا اس انداز میں کی جیسے مجھ سے اپنا قرض مانگ رہا ہو، مجھے کہا کہ تہمیں کھبی کھبی ٹی وی پر دیکھ کر سوچتا ہوں کہ شاعر بندہ ہے لیکن بس ڈم بنا پیھرتا ہے،میں نے کہا کہ بھائی میں نیوز میں کام کرتا ہوں اور صحافی ہوں،تو موصوف نے کہا کہ آج کل صحافی کدھر ہے،سب میراثی بن کر صحافت کو بدنام کررہے ہیں،صحافت تو میرے باپ نے کی تھی،میں نے کہا کہ اپ نے کیا کیا ہے آج تک، تو فرمانے لگے کہ میں بہت بڑا تنقید نگار ہوں،پھر اقبال کے شعر کو اپنے نام کرکے مجھے سنایا کہ، نہیں ہے تیرا نشیمن قصر سلطانی اے چالان مومند،تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر،ان کی جسمانی بناوٹ اور سخاوت کو دیکھ کر شعر سے اور ان سے اختلاف کرنا اپنے حق میں بالکل بھی نہیں سمجھا،ورنہ دل میں آیا کہ اسے باہر نکال کر پی ڈی اے کے ان پرانے بیڈفوڑد ٹرک کے نیچے دھکہ دیکر اسے ابدی نیند سولاو جو گند اٹھاتے ہیں،
پھر دل میں خیال آیا کہ اس کا تو کچھ نہیں ہوگا بس ٹرک کا بہت برا حال ہوسکتا ہے،
میں نے پوچھا کہ اپ کی نظر میں سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ تو موصوف نے برجستہ کہا کہ میں خود، میری وجہ پوچھے بغیر اس نے کہا کہ میری وزن تین سو بارہ کلو ہے، میں نے پوچھا کہ ادب میں کوئی کارنامہ، تو کہا کہ میرے مرنے کے بعد میرا دیوان نامہ مارکیٹ میں ا جائیگا وہاں پھر پڑھنا،میں نے پوچھا کس سے زیادہ متاثر ہو؟تو کہا کہ خود سے،میں نے سوچا کہ چلو یہ جواب تو برابر دیا کیونکہ اس بھاری بھرکم جسم کو ان ناتواں ہڈیوں سے گسیٹھنے کو ہی تو متاثر ہونا کہتے ہیں،
میں نے پوچھا کہ نام بڑا عجیب ہے،اس نے کہا کہ میرے نام کا مطلب ہے روشنی لیکن بس شاعروں اور ادیبوں کی حرکتوں کی وجہ سے میرے دل میں ہمیشہ اندھیرا چھایا رہتا ہے،
موصوف نے ایک سیب یا بلی کے سر کے برابر نسوار منہ میں رکھتے ہوئے مجھے کہا کہ بھائی اب میری خاموشی کا وقت ہواچاہتا ہے کیونکہ مجھ پر ابھی شعروں کا نزول ہونے والا ہے،اتنے میں فرنی کا پلیٹ ٹیبل پر آیا تو موصوف نے اپنی انگلیوں کو فُول سائز چمچ بنا کر فرنی کو کھانا شروع کیا اور پھر کوکا کولا بوتل سے سٹرا پائپ نکال کر کھیر کی پلیٹ کو قبیلے کی طرف کرکے اسے پائپ کے ذریعے پینے میں مصروف ہوگئے، اور ہاں کھانے کے دوران تین چار چیکن کو ایسا صاف کیا کہ مرغیاں بے چاری خود سوچتی ہوگی کہ کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں، مرغیوں کو ہڈیوں سمیت کھاتے ہوئے مجھے کہا کہ مرغی کی ہڈیوں کو اس لئے چبا رہا ہوں کہ یہ ہڈیاں پھینکنا میں زنانی حرکتیں سمجھتا ہوں،
تو یہ تھے چالان مومند صاحب جو اپنی ذات میں ایک ریاست ہے کیونکہ ایک پورا صوبہ تو ان کا سر ہے، بس یہ معلوم نہ ہوسکا کہ قلعہ بالا حصار جیسے جتنے سر میں مغز کتنا ہوگا؟ ہوگا بھی یا نہیں،اللہ ھم سب کو کسی دعوت میں ایسی شخصیت کا ہمنوا بننے سے محفوظ رکھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں