فاٹا انضمام پر پسپائی ؟ جرگہ نظام کی واپسی
تحریز: محسن داوڑ
اس ہفتے میرانشاہ میں ایک جرگہ منعقد کیا گیا، جس میں مقامی آبادی کو ایک دوٹوک پیغام دیا گیا: یا تو وہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پناہ دینا بند کرے، یا پھر ممکنہ فوجی کارروائی کے لیے تیار رہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف حیران کن ہے بلکہ اس پس منظر میں خاص طور پر افسوسناک بھی، کہ یہ وہی علاقہ ہے جس نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان کی غیر متوازن افغان پالیسیوں کی سب سے بھاری قیمت چکائی ہے۔
تحریک طالبان پاکستان اور افغانستان کی اسلامی امارات کی حکومت، درحقیقت، الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی نظریاتی اور عملی تسلسل کی کڑیاں ہیں۔ ماضی میں، جب افغانستان میں جمہوری حکومت قائم تھی، طالبان پر واضح دباؤ موجود تھا۔ تاہم، کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد، یہ توازن یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ طالبان کے قبضے کے اگلے ہی روز سینکڑوں قیدیوں کی رہائی ہوئیبشمول ٹی ٹی پی کمانڈر مولوی فقیر محمد،
مولوی فقیر نے نہ صرف افغانستان میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا، بلکہ پاکستان پر بھی یہی ماڈل اختیار کرنے کا دباؤ ڈالا۔
اس تناظر میں، شمالی وزیرستان میں کسی ممکنہ فوجی کارروائی کا نتیجہ وہی پرانا ہوگا: ٹی ٹی پی کے جنگجو آسانی سے افغان سرحد پار کر کے پناہ لے لیں گے، جیسا کہ وہ ماضی میں متعدد بار کر چکے ہیں۔ افغان طالبان، جنہیں پاکستان کی حکومتوں نے طویل عرصے تک سفارتی اور سیاسی سطح پر ناراض نہ کرنے کی پالیسی اختیار کی، کسی قسم کی مداخلت یا تعاون کے امکانات سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔
یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ افغان طالبان کی موجودہ حکمرانی، کم از کم جزوی طور پر، پاکستان کی اس پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے تحت 9/11 کے بعد سے طالبان عناصر کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی گئیں۔ اس سلسلے میں عمران خان کے طالبان کے حوالے سے دیے گئے بیانات ہوں یا موجودہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے کابل کے سفارتی دورے، پاکستان کی جانب سے طالبان کو مسلسل جائز حیثیت فراہم کرنے کی کوششیں عیاں ہیں۔
ایسے حالات میں، ریاست کی جانب سے شمالی وزیرستان کے عوام کو طالبان کو پناہ دینے کا الزام دینا، نہ صرف غیرمنصفانہ ہے بلکہ اس کے ممکنہ اثرات خطرناک بھی ہو سکتے ہیں ۔ یہ وہی عوام ہیں جنہوں نے آپریشن ضربِ عضب کے بعد طالبان کی واپسی کے خلاف مسلسل احتجاج کیے، اپنے جان و مال کی قربانیاں دیں، اور ایک غیر یقینی معیشت کے بوجھ تلے دبے رہے،
مزید یہ کہ، طالبان کی موجودگی محض شمالی وزیرستان تک محدود نہیں، بلکہ اب وہ لکی مروت، بنوں، ٹانک، ڈی آئی خان، کرک، جنوبی وزیرستان اور خیبر پختونخوا کے دیگر کئی اضلاع میں بھی متحرک ہیں۔ ایسے میں صرف ایک علاقے کو ہدف بنانا یا تو ناقص انٹیلیجنس کا شاخسانہ ہے، یا پھر دانستہ طور پر اختیار کردہ امتیازی پالیسی۔
یہ بھی مدنظر رہے کہ افغان طالبان کی موجودگی صرف عسکری نوعیت کی نہیں بلکہ ان کے خاندان، کاروبار اور رہنماؤں کی موجودگی بھی پاکستان میں واضح ہے۔ افغانستان میں غیر یقینی حکمرانی کے تناظر میں پاکستان ان کے لیے ایک نسبتاً مستحکم بیس بنتا جا رہا ہے۔
ایک اور تشویشناک پیش رفت سابقہ فاٹا میں جرگہ نظام کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی تشکیل ہے۔ یہ اقدام دراصل اس بات کا اعتراف ہے کہ ریاست تاحال فاٹا کے عوام کو پاکستان کے عدالتی نظام میں مکمل طور پر شامل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ فاٹا کے انضمام کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ قبائلی علاقوں کے عوام کو آئینِ پاکستان کے تحت مساوی حقوق اور انصاف فراہم کیا جائے۔ جرگہ نظام کی بحالی، اس انضمام کی روح کے صریح خلاف ہے۔
یہ بھی اہم ہے کہ جرگہ کمیٹی کی تشکیل، ایف سی آر (فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن) جیسے ظالمانہ قانون کی واپسی کی بو دے رہی ہے۔ ایف سی آر کے تحت اجتماعی سزا کا تصور موجود تھا، جہاں چند افراد کی غلطیوں کا خمیازہ پوری برادری کو بھگتنا پڑتا تھا—اور یہی عمل ایک بار پھر میرانشاہ میں دہرایا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ طالبان کی جانب سے بھی فاٹا انضمام کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا چکا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض نے بھی مذاکرات کے دوران انضمام کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کی بات کی تھی۔ جرگہ نظام کی بحالی اسی ذہنیت کا تسلسل معلوم ہوتی ہے۔
ریاست کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان اس وقت تک پائیدار امن کی طرف نہیں بڑھ سکتا، جب تک وہ ایک واضح اور اصولی مؤقف اپناتے ہوئے افغان طالبان اور ان کے پاکستانی اتحادیوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی نہ کرے۔ شہریوں کو موردِ الزام ٹھہرانا، قبائلی نظامِ انصاف کو بحال کرنا، اور مخصوص علاقوں میں نمائشی کارروائیاں کرنا امن کا حل نہیں، بلکہ اس بحرانی صورتِ حال کو مزید گمبھیر بنائے گا۔

شکریہ : فرائیڈے ٹائمز Friday Times
ترجمہ’ دی خیبرٹائمز thekhybertimes.com
رائیٹر،،، محسن داوڑ جو سابقہ رکن قومی اسمبلی اور نیشنل ڈیموکریٹیک موومنٹ کے چئیرمین ہیں
نوٹ : یہ مضمون ( فرائیڈ ے ٹائمز ) نے اتوار 6 جولائی 2025 کو شائع کیا ہے
یہاں ہم دی خیبرٹائمز ان کا ترجمہ شائع کررہے ہیں،