قبائلی اضلاع: انضمام سے امید تھی، ملا انتشار
فیچر رپورٹ | دی خیبر ٹائمز
📰
قبائلی اضلاع، جنہیں پہلے فاٹا (Federally Administered Tribal Areas) کہا جاتا تھا، کو 2018 میں پاکستان کے آئین میں ترمیم کے ذریعے خیبرپختونخوا میں شامل کر دیا گیا۔ اس تاریخی انضمام کا مقصد تھا:
دہائیوں سے محرومی کے شکار قبائلی عوام کو قومی دھارے میں لانا
آئینی حقوق، تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی
اور دہشت گردی کے خلاف پائیدار امن کا قیام
لیکن آج، یہی علاقے پھر سے بدامنی، کرپشن اور ریاستی غفلت کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔
فنڈز کا بحران: وعدے بڑے، عمل صفر
وفاقی حکومت نے انضمام کے وقت اعلان کیا تھا کہ فاٹا اضلاع کو اگلے 10 سال تک سالانہ 100 ارب روپے دیے جائیں گے۔
لیکن 2024 میں ہوا کیا؟
350 ارب روپے کی ادائیگی ہونی تھی (NFC کے تحت)
اب تک صرف 83 ارب روپے جاری کیے گئے ہیں
267 ارب روپے وفاق کے ذمے واجب الادا ہیں
یہ تاخیر ترقیاتی منصوبوں کی تباہی، اور عوامی بے چینی کا سبب بن رہی ہے۔
صوبائی حکومت کی بے حسی اور اندرونی کرپشن
نہ صرف وفاق بلکہ صوبائی حکومتیں بھی مخلص نظر نہیں آتیں۔ سابقہ حکومتوں کے ادوار میں:
محکمہ صحت اور تعلیم میں تقرریوں میں سیاسی مداخلت
قبائلی اضلاع میں بھرتیوں میں اقربا پروری
فنڈز کا غلط استعمال، جعلی اسکیمیں اور ناقابلِ تکمیل منصوبے
ایک قبائلی بزرگ نے “دی خیبر ٹائمز” کو بتایا:
“ہم نے انضمام میں آئینی تحفظ اور ترقی کا خواب دیکھا تھا، مگر ہمیں کرپشن اور حکومتی لاپرواہی ملی۔”
بدامنی کی واپسی اور اسلحہ بردار تنظیمیں
ضم شدہ اضلاع میں ایک اور سنگین مسئلہ ہے سیکیورٹی کی بگڑتی صورتحال۔ رپورٹوں کے مطابق:
مسلح تنظیمیں دوبارہ سرگرم ہو رہی ہیں
مقامی جرگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے
سرکاری رٹ نہ ہونے کے برابر ہے
ایک مقامی استاد کے مطابق:
“ہم سکول میں پڑھانے کے بجائے تحفظ کی دعائیں کرتے ہیں۔”
انضمام کی جلد بازی اور گراونڈ پر ناکامی
ماہرین متفق ہیں کہ انضمام کی آئینی حیثیت مضبوط ضرور ہے، مگر:
گراونڈ پر تیاری مکمل نہیں تھی
فاٹا سیکرٹریٹ کا ختم کیا جانا جلد بازی تھی
مقامی روایات، جرگہ سسٹم اور انتظامی ڈھانچے کو بغیر منصوبہ بندی کے بدل دیا گیا
عدالتوں اور پولیس نظام کا نفاذ بغیر تربیت اور وسائل کے ہوا
جس کا نتیجہ آج بھی انتشار اور عدم اعتماد کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
🏴 غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت
باخبر ذرائع کے مطابق، ضم شدہ اضلاع میں آج بھی:
بعض غیر جمہوری قوتیں معاملات چلا رہی ہیں
سویلین ادارے کمزور اور غیر فعال ہیں
ترقیاتی فنڈز اور بھرتیاں مخصوص مفادات کے لیے استعمال ہو رہی ہیں
یہ صورتحال “ریاست کے اندر ریاست” کے تاثر کو مزید گہرا کر رہی ہے۔
نتیجہ: انضمام کا مقصد پورا نہ ہو سکا
ضم شدہ اضلاع میں آج:
ترقی نہیں، انتشار ہے
رٹ نہیں، رسا کشی ہے
حقوق نہیں، صرف وعدے ہیں
اگر واقعی قبائلی اضلاع کو قومی دھارے میں لانا ہے تو:
- واجب الادا فنڈز فوری ادا کیے جائیں
- کرپشن پر زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جائے
- سیکیورٹی کی مکمل بحالی کی جائے
- مقامی نوجوانوں کو روزگار اور تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں
- ایک نیا، مقامی سطح کا ترقیاتی ماڈل بنایا جائے
“قبائلی عوام نے دہشت گردی اور آپریشنز کے دوران جو قربانیاں دیں، وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ اب وقت ہے ریاست ان کا حق ادا کرے ، وعدے نہیں، عمل چاہیے۔”