کون چھپا رہا ہے سچ؟ کھیل کے میدان میں خاموشی کی گونج!


تحریر:  مسرت اللہ جان

یہ کوئی فلمی سازش نہیں، بلکہ حقیقت ہے! خیبر پختونخوا میں “شفافیت” کے نعرے تو خوب بلند کیے جاتے ہیں، مگر جب بات آتی ہے سچ دکھانے کی، تو دروازے بند، پردے گرا دیے جاتے ہیں اور زبانیں سل جاتی ہیں!

تصور کیجیے — ایک صحافی نے صرف اتنی گزارش کی کہ بتایا جائے پشاور، چارسدہ، نوشہرہ، بنوں اور سوات کے ضلعی کھیل دفاتر نے ایندھن کیسے خرچ کیا؟ کون سا جنریٹر کتنی دیر چلا؟ کتنی مرمت ہوئی؟ کتنا ڈیزل پیا گیا؟ یہ معلومات 2013 کے آر ٹی آئی قانون کے تحت طلب کی گئیں، جس کے مطابق 10 دن میں جواب دینا فرض ہے۔

مگر یہاں دو ماہ بیت گئے! نہ کوئی جواب، نہ کوئی نوٹس، نہ ہی کوئی وضاحت۔ بس ایک گہری، پراسرار خاموشی۔ جیسے کسی نے اس سچ پر تالا لگا دیا ہو۔

ایسا کیوں؟ کیا ریکارڈ ہے ہی نہیں؟ یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ فائلوں میں چھپے وہ کاغذ دھماکہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں؟ یہ وہی محکمہ ہے جس پر پہلے بھی “کاغذی منصوبے” اور “اندھیر نگری” جیسے الزامات لگ چکے ہیں۔ جب پٹرول کے بل تک چھپائے جا رہے ہوں، تو باقی لاکھوں کروڑوں کہاں جا رہے ہیں؟

سوال یہ بھی ہے:
کیا خیبر پختونخوا کی حکومت واقعی معلومات تک رسائی کی حامی ہے، یا یہ سب بس اشتہاری دعوے تھے؟
کیا ڈائریکٹوریٹ آف اسپورٹس قانون سے بالاتر ہو چکا ہے؟

اور سب سے خطرناک بات —
اگر صحافیوں کو اس طرح نظرانداز کیا جا رہا ہے، تو ایک عام شہری کو انصاف اور سچائی تک رسائی کیسے ملے گی؟

یہ خاموشی معمولی نہیں — یہ شاید ایک بڑے مسئلے کی آہٹ ہے۔
ایندھن کے بلوں سے بات آغاز ہوئی ہے، مگر اگر پردے اٹھے تو پورا کھیل ہی بےنقاب ہو سکتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت جاگتی ہے، یا پھر یہ معاملہ کمیشنوں اور عدالتوں کے کمرے ہلا کر رکھ دے گا۔


#محکمہکھیلخاموشکیوں

#پیسہعوامکاحقبھیعوام_کا


اپنا تبصرہ بھیجیں