صحافت ‘ صح آفی اور صح۔آفت ۔۔۔۔ تحریر : مسرت اللہ جان

ایک دور تھا صحافت کے ذریعے قوم کو آگاہی ملتی تھی کہ کس شعبے میں کیا ہورہا ہے کیا چیز نئی آرہی ہیں لکھنے والا بھی غیر جانبدار ہوتا ‘ لکھنے والا رپورٹ لکھتا اور پڑھنے والے خود تجزیہ کرتے کہ کیا چیز ٹھیک ہے اور کیا غلط ہے لیکن.. اب صحافت تو پشتو زبان کے الفاظ کے مصداق صح تو غائب ہوگئی اب صرف آفت بن کر رہ گئی ہیں، لکھنے والے بھی آفت ہیں اور پڑھنے والے بھی اسے پڑھ کر آفت کا شکار ہو جاتے ہیں، یقین نہیں آتا تو اس کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ لکھنے واالا کتنی آفت لکھ کر گیا ہے ..
وقت نے ہر چیز تبدیل کرکے رکھ دی ہیں صحافت کے شعبے میں کا م کرنے والے بھی مجھ سمیت سارے کام چور ہوگئے ہیں ‘ تحقیقاتی رپورٹنگ کا تصور تو اب حال حال ہی ہے ‘ بس جو مل گیا آگے فارورڈ کردیا ‘ ٹیکنالوجی کے بڑھتے استعمال نے سب کچھ آسان کردیا اب صحافیوں کو نوٹ لینے کی ضرورت بھی نہیں کسی زمانے میں صحافیوں کے جیب میں نوٹ بک اور بال پوائنٹ ہوا کرتی تھی پریس بریفنگ کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ نوٹ بک پر لکھے گئے پوائنٹس صحافی ایک دوسرے کیساتھ شیئر کرتے کہ فلاں پوائنٹ ہے اب تو بال پوائنٹ کے بارے میں سوچنا بھی محال ہے ‘ کہیں بریفنگ ہو ‘ صحافی آرام سے ویڈیو بنا کر بعد میں خبر بنا لیتے ہیں ‘ کھڑے کھڑے ٹکر ز بن جاتے ہیں ‘ آڈیو ریکارڈ کرکے دفاتر کیساتھ شیئر کیا جاتا ہے-اور پھر ایڈیٹر جانے اور اس کا کام جانے..
صحافت کے شعیے میں پہلے بھی تیس مار خان بہت کم تھے کھیلوں کے شعبوں سے لیکر کورٹس ‘ ہیلتھ ‘شوبز ‘ جنرل رپورٹنگ تک کرنے والوں میں بہت سارے کام چور موجود تھے ایک بندہ کام کرتا ااور اس کو شیئر کرتا اور پھر سارے صح. آفی .. اس کو اپنے دفاتر میں فارورڈ کرتے – لیکن ان لوگوں میں اتنی عقل ہوتی کہ انٹرو ‘ یعنی خبر کا ابتدائیہ تبدیل کرتے اور پھر اگلے دن اخبارات میں پتہ چلتا کہ کس صحافی نے کونسی چیز اٹھائی ہے اور اس کی لیڈ بنی ہیں اس پر مقابلے ہوتے کسی حد تک تعلیم کاتصوربھی تھا لیکن اب تو ماشاء اللہ…

صح. آفی کیساتھ تعلیم کا تصور تقریبا ختم ہو کر رہ گیا سہل پسندی اورٹیکنالوجی کے استعمال نے اس شعبے کو آتنا آسان کردیا ہے کہ اس شعبے میںہر تیسرا شخص کسی بھی شعبے سے اٹھ کر رپورٹر بن رہا ہے کوئی معیار نہیں رہا ‘ لکھنے بھی کسی کو نہیںآتا ‘ بلکہ بعض تو ماشاء اللہ سکول کے آگے سے تو کی پیچھے سے بھی نہیں گزرے لیکن اتنے بڑے صحافی بن رہے ہیںکہ عقل حیران و پریشان ہیں کہ اس شعبے پر آنیوالا زوال اسے کہا ں تک لے جائیگا-اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ہی چند صحافیوں کی مطلب پرستی ہے یعنی خود کو عقل کل او ر ووٹ کا چکر ہے کہ وہ ہر اس شخص کو سپورٹ کرتے ہیں جو انہیں ووٹ دے سکے یا دلا سکے.اسے اس سے کوئی مطلب نہیں کہ اس شعبے میں آنیوالا شخص کس مقصد کیلئے آرہا ہے -بس اسے سپورٹ چاہئیے اور آنیوالے شخص کو ” پریس ” کارڈ چاہئیے تاکہ وہ لوگوں کو “امپریس کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مقاصد کیلئے لوگوں کو پریس بھی ” کرسکیں-
یقین نہیں آتا تو سڑک پر چلنے والے ہر گاڑی جس پر پریس لکھا ہوتا ہے کھڑا کرلیں اور اگر وہ اپنے آپ کو صحافی یا پریس سے وابستہ بتا رہا ہے ان سے یوچھیں کہ اس کا کاروبار کیا ہے ‘ گاڑی کہاں سے لی.یہ تو بڑی باتیں ہیں. پوائنٹس دیں کہ اس پر خبر بنائیں ‘ انگریزی اخبار دیں اور ان سے کہیں کہ اس کا ترجمہ کریں .آپ کو لگ جائیگا پتہ کہ ” پلاٹ اور میڈیا کالونی کے چکر” میں صحافت میں آنیوالے ” صح آفیوں” کی حقیقت کی ہے.
ایک دور ہوا کرتا تھا کہ صحافت کے شعبے سے وابستہ افراد کی بڑی عزت ہوتی تھی تنخواہ کم ہوتی لیکن معاشرے میں عز ت بہت زیادہ ہوتی اب اس شعبے میں آنیوالے صح آفیوں کی بڑی تعدادجن کی گاڑیوں پر پریس لکھا ہوتاہے ان کے دل میں عزت آنی جانی چیز ہے بس بندے کو بے غیرت ہون چاہئے پیسہ ہوناچاہئے ‘ کے نعرے ہیں اور اپنے مقصد کیلئے یہ کہاں تک گر سکتے ہیں کہ لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ان میں بعض دلال بن کر رہ گئے ہیں’ کوئی شراب کی بوتل ‘ کوئی پرائی خاتون کو آگے لاکر صح آفت کررہا ہے . اور کوئی رقمیں لیکر لوگوں کی بھرتیاں اور تبادلے کروا رہاہے.
یقین نہیں آتا تو اپنے ارد گرد دیکھ لیں . اس شعبے سے وابستہ حقیقی صحافی آج بھی نان نفقے کے پیچھے خوار ہیں یہ تو اللہ تعالی کا شکر ہے کہ ان پر اللہ تعالی نے پردہ ڈالا ہے اور ان کی زندگیاں گزر رہی ہیں کیسی گزر رہی ہیں ذرا ان کیساتھ بیٹھ کر ان کی حالت زندگی کا تجزیہ کریں .جن کو موقع ملتا ہے اس شعبے سے جن چھڑا کر بھاگ جانے میں عافیت سمجھتے ہیں -یہی وجہ ہے کہ اس شعبے کی آڑ میں ملک سے بھاگنے والے بہت سارے صحافیوں میں دو نمبری صح آفیوں کی تعداد زیادہ ہے. جو یہاں پر بڑے بڑے دعوے کرتے تھے لیکن اب انگریزوں کے جھوٹے برتن ‘ لیٹرین تک صاف کرتے ہیںبلکہ بعض تو اب بیرون ملک اس کاموں میں اتنے
ماہر ہوگئے کہ بس …

جب لکھنے کا مقصداپنا پیٹ ہو تو پھر لکھنے والا اپنی پیٹ کے مطابق یعنی اپنی حرص کے مطابق لکھے گا لکھنے والے کو اس سے کوئی فرق نہیں کہ کھیل ‘ عدالتی امور ‘ سیاسی امور’ صحت ‘ معاشی مسائل کیا ہیں لوگوں کی زندگیاں کیسی گزررہی ہیں کیا بہتری آرہی ہیں اس پر کوئی بھی شخص بتا دیں کہ اس نے کوئی رپورٹ دیکھی ہو. اخبار سے لیکر ٹی وی چینل یا وٹس گروپوں میں ‘ بس فلاں ایس ایچ او نے دبنگ کارروا ئی کی ‘ وکیل نے کیس جیت لیا ‘ وزیر نے نوٹس لے لیا ‘ تبادلے ہوگئے ‘ وزیر کا کہنا ہے کہ کرینگے ہو جائیگا ‘ اسی طرح کھیلوں کے میدان میں فلاں صاحب نے یہ کہا ‘ کبھی کسی نے یہ نہیں لکھا کہ کھیلوں کے میدان میں ہم کیوں پیچھے ہٹتے جارہے ہیں ‘ بین الاقوامی معیار کا کھلاڑی سوائے کرکٹ کے کسی شعبے میں کیوں نہیں آرہا ‘ یہی صورتحال صحت کے شعبے سے بھی ہیں مریضوں کو سہولیات کیا ہیں ‘ بزنس مین کو کیا مسئائل ہیں مزدورو ں کو تنخواہیں مل رہی ہیں یا نہیں اس پر کسی کو لکھنے کی ہمت نہیں نہ ہی کوئی لکھتا ہے نہ ہی اخبار میں ‘ ٹی وی چینل پر اور نہ ہی اپنے فیس بک کے وال پر ‘ یا واٹس ایپ کے کسی گروپ میں کہ اپنے حصے کا کام کیا ہو – یہی وجہ ہے کہ اخبارات ہو یا میگزین ‘ ٹی وی چینل ہو یا سوشل میڈیا پر سب کی سب ایک ہی طرح کی چیزیں چل رہی ہیں اور بیشتر مکھن بازی پر مشتمل ہوتی ہیں-
صحافت کیساتھ کھلواڑ کے اس کھیل میںسینئر صحافیوں کیساتھ پریس کلب ‘ یونین کے منتخب اراکین سمیت پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اور تمام متعلقہ ادارے ذمہ دار ہیں جنہوں نے کبھی صحافیوں کی تربیتی سیشن نہیں کروائے ‘نہ ہی صحیح طریقے سے سکروٹنی کروائی ‘ نہ ہی انہیں عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق تیار کروایا -بس ممبر شپ دی جارہی ہیںکیونکہ منتخب عہدیداروں کو ہوٹلوں میں کھانے کھلائے جاتے ہیں- شراب کی بوتلیں ملتی ہیں پرانے شباب کیساتھ چرس کے دور چلتے ہیں اور پھر صحافت بھی ہوتی ہیں اور لوگ سینئر بھی کہلائے جاتے ہیں-ایک دور میں سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی جو اب کہ اب ) ایویں پالے پالے( کا ایک معیار ہوتا تھا لیکن اب تو پریس ریلیزوں اور پرانی خبریںچلا کر سرکار کے جیب پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے- یقین نہیں آتا تو ملک کے کسی بھی حصے میں واقع (ایوں پالے پالے( کے کسی دفتر کا دورہ کریں وہاں پر دی جانیوالی سہولیات ‘ تنخواہوں اور مراعات کا پتہ کریں اور پھر ا س کے ملازمین سے پوچھیں کہ وہ قسم کھا کر ثبوت کیساتھ بتائیں کہ کب انہوں نے کوئی خبر بھیجی ہے ‘ کتنی سوشل میڈیا سے اٹھائی ہے ‘ کتنی پرانی خبریں چلائی ہیں اورکب و ہ فیلڈ پر گئے ہیں.
موجودہ حکومت نے زندگی کے ہر شعبے میں اصلاحات کئے ہیں مگر یہ واحد شعبہ ہے کہ اس کی سکروٹنی کا عمل نہیں کیا گیا کیاصحافی کیلئے زبان دراز ہونا کافی ہے ‘ بدتمیز ہونا کافی ہے ‘ خوشامدی ہونا لازمی ہے ‘ وزارت اطلاعات صحافیوں سے یہ بھی پتہ کریں کہ کالم کیا ہے ‘ اخبارات کے کالم کتنے ہیں ‘ ایڈیٹوریل کیا ہے ‘ صحافیوں سے انگریزی ‘ اردو اور پشتو زبان میں ترجمہ کروائیں اور اس کے نتائج شائع کروائیں پھر پتہ لگ جائیگا کہ کتنے اصل میں صحافی ہیں اور کتنے نام نہاد بیورو چیف بن کر اداروں کو بلیک میل کرنے میں مصروف عمل ہیں-اور اگر یہ عمل نہیں کیا گیا تو پھر..انجام گلستان کیا ہوگا. خدا جانے.

اپنا تبصرہ بھیجیں