” انتہا پسندی کے نشے میں لت معاشرہ “

خصوصی تحریر حامد علی جعفری

معاشرے میں جب موسیقی کے الات ہتھیار سے ذیادہ تباہی کے الات تصور کئے جائیں اور یونیورسٹی سے طالب علم کو رات کی تاریکی میں ذہنی ٹارچر کر کے نکالا جائے کہ انہوں نے اپنے ساتھ رباب کیوں رکھا؟؟؟ صرف رباب رکھنے کی جرم میں انہیں ہاسٹل سے راتوں رات بے دخل کرکے نکالنا؟؟؟ ایسی انتہاپسندی کو ہم کیا نام دے سکتے ہیں؟؟؟ ایسے ہی سوچ اور اقدامات سے اندازہ لگاسکتے ہیں،،، کہ ہمارا معاشرہ کب سدھر جائیگی؟؟ کب ایسے منفی سوچ سے مثبت اقدامات کی جانب گامزن ہوجائیگی؟؟؟ ہمارے معاشرے میں مذہبی جنونیت کی لگی آگ میں دین کے ٹھیکیدار جلتی پر تیل کا کام کرہے ہیں۔ پولارائزڈ معاشرہ جو قدم قدم پہ ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہے جو مختلف حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے لسانی، جنسی اور نسلی بنیادوں پر نفرت کے اس کینسر ذدہ بیمار معاشرے کو اب مرہم پٹی نہیں بلکہ بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے کئی ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے ہیں چاہے وہ مشال کا قتل ہو ،،، یونیورسٹی میں یا سری لنکن انجینیئر کا مذہبی شدت پسند جتے کے ہاتھوں فیکٹری میں موت ہو؟؟ یا پھر سوات مدین میں مبینہ توہین قران مجید کے الزام میں انسان کا قتل پھر ان کی جسد خاکی کو نذر آتش کرنا؟؟ یہ سارے واقعات ایک ہی سوال اپنے پیچھے چھوڑ کر ہمارے انکھوں سے اُجل جاتی ہیں کہ کیا ہمیں یہ سرٹیفیکیٹ بانٹنے کا اختیار ہے کہ ہم کسی کو بھی کافر بنادیں؟؟ کسی کے واجب القتل کا فتویٰ دے سکتے ہیں؟؟؟ ایسے ہی واقعات کئی اہم سوالوں کو جنم دیتی ہے۔۔۔ کہ آیا یہاں ریاست کی رٹ ختم ہوچکی ہے؟؟؟ یا کیا پاکستان میں کوئی ایسا بھی ہے، جس کے سامنے ریاست اور ریاستی مشینری بھی کسی کو بچانے میں ناکام ہے ؟؟؟ اگر ریاستی ادارے ریاست کی رٹ برقرار نہیں رہ سکتی،؟؟؟؟ پھر تو اس کو اپنی کمزوری پر رونا چاہئے؟؟؟ یا انہیں روتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے رخصتی لینی چاہئے ؟؟؟

جب کوئی بھی شہری ایسے سوالات کے جوابات ڈھونڈتے پھرتے نطر آتے ہیں، تو انہیں خود بھی ایک خوف محسوس ہوتا ہے، کہ کہیں وہ ایسے ہی مذہبی جنیونیت کا شکار نہ ہوجائے؟؟؟ کیونکہ انہیں بھی معلوم ہے، کہ ملک میں ہم سب من حیث القوم،،، ہر چیز کو چیز کو مذہبی زاویے سے دیکھتے ہے،،، اور پھر اسے بھی ان عقل کل کی عدالت میں پیش نہ ہونا پڑے ؟؟؟ پھر ان کے خلاف فیصلہ یہی ان پڑھ عقل قل خود جج نہ بن جائے؟؟؟ پھر ایسے صورت حال میں جب کسی کو خبرپہنچنے سے قبل وہ اپنے فیصلے کی خبر دینگے؟؟؟ یہی عقل قل اور خود ساختہ نام نہاد اسلام کے ٹھیکیدار وکیل اور دلیل سے قبل خود قاضی بن کر نہ صرف فیصلے سنادیتی ہے، بلکہ خود فیصلے پر عمل در کرنے کیلئے خود میدان میں نکل کر تلوار کے بجائے پتھروں اور اینٹ چلانے سے دریغ نہیں کرتے،،، اور خود ہی ہر کسی کا قصہ منطقی انجام تک پہنچانے کے بعد ہی گھر جاتے ہیں،،،

اہم بات یہ بھی ہے کہ توہین کا تعین کون کریگا؟؟؟ کیا ریاست کریگی؟؟؟ یا ایک جتا؟؟؟

کیا عوام کا اداروں سے اعتماد اٹھ چکا ہے؟؟؟؟

کیا کوئی بھی وطن عزیز میں قانون اور آئین کو اپنے ہاتھ میں لینے سے نہیں گھبراتے؟؟؟

اصل بات تو یہ ہے کہ ریاست اپنا رٹ منوانے میں ناکام ہوچکا ہے، ایسی مذہبی جنونیت نہ صرف معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر رکھی ہے، بلکہ انسانیت کے نام پر رہی سہی رواداری بھی اپنی ساکھ برقرار رکھنے میں ناکام ہورہی ہے۔

اب ہمارے ذہنوں میں ایک ہی سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ہم اس مذہبی جنونیت اور نفرت کے کینسر میں مبتلا معاشرے کی اس بیماری کو مزید پھیلنے سے روکنے میں انفرادی طور پر کیا کردار ادا کرسکتے ہے۔ جی ہاں ظاہر ہے اتنے بڑے پیمانے پر معاشرہ تقسیم ہوچکا ہے کہ ہم اب ایک دوسرے کی بات کو سننے کے لئے تیار نہیں۔ پھر ایسے میں انفرادی طور پر آج سے ہی کینسر کا اسی ٹریٹمنٹ کا اغاز کریں کہ ہم دوسرے بندے کی رائے سے اختلاف رکھیں گے، لیکن احترام کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔ اختلاف کو نفرت میں نہیں بدلنے دینگے۔ بس جنونیت کواپنے اوپر سوار ہونے سے پہلے یہی بات ذہن نشین کرنی چاہئے، کہ سب سے پہلے انسانیت کے اصول کو اپنانا چاہئے چاہے دوسرے بندے کی رائے ہم سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں