اس کا نام سیلاب محسود نہیں ہونا چاہئے تھا۔۔۔۔۔؟؟؟ (( افاقیات )) تحریر : رشید آفاق

اس کے بارے میں میرا یہ ذاتی تجزیہ ہے، کہ وہ دوسو سال بعد میں پیدا ہوئے تھے، اگر چہ اسے دوسو سال پہلے پیدا ہونا چاہئے تھا، کیونکہ ان کے خیالات ، ان کی وفاداری، ان کا مشفقانہ انداز، اور دوستانہ رویہ، حال کے اس زمانے کے ساتھ میچ ہی نہیں کررہا تھا، وہ جس زمانے میں پیدا ہوئے تھے، وہ تو منافقت، مفاد پرستی، اور انسان دشمنی کا زمانہ ہے، اس لئے اکثرلوگ اس کی شخصیت ہی سمجھ نہیں پارہے تھے، ان کی ذات سچائی اور عظمت، کی منار تھی، ان کی شخصیت اتنی ہمہ گیر تھی، کہ انسان کا ذہن دنگ رہ جاتا، کہ شروعات کہاں سے کی جائے، میں انہیں کم از کم تیس سالوں سے نہ صرف جانتا تھا، بلکہ اس کے ساتھ ایک ہی جگہ کام کیاتھا، ایک ہی تنظیم میں ، ان کے ساتھ دل و روح کا رشتہ قائم تھا، اور اسے بھی مجھ سے اس قدر خلوص تھا، کہ میری شخصیت خود معتبر ہوتھی، البتہ اس کانام سیلاب محسود نہیں ہونا چاہئے تھا، سیلاب تو تباہ کاریاں پھیلاتاہے، بربادیاں اور ویرانیاں لاتا ہے، جبکہ ہمارا سیلاب تو آبادیوں کومزید آباد کرکےاپنا گرویدہ نبھاتے تھے، وہ تو ویران زہنوں کو اتنی وسعت دیتے تھے، کہ خیالوں کے ریگستانوں میں بھی پھرل جڑ جاتے تھے، کلیاں نکل آتی تھی، پھر اسے سیلاب کا نام تو نہیں دیاجانا چاہئے تھا، ہاں اپ سب بالکل ٹھیک سمجھےمیں قبائلی صحافت کے بابا آدم قبائلی صحافت کے معمارجدیدصحافت کے روح رواں صحافتی اقداروں کے آمین اور قبائلی صحافیوں کے شکسپیئر سیلاب محسود کی بات کررہاہوں، یقیناً سیلاب محسود جس کے مرحوم لکھنے کو بالکل دل نہیں کررہاہے، ہم جیسے سنکڑوں صحافیوں کو صحافت کے آداب تک سیکھائے، صحافت میں سکھایا کہ پہلے کوئی سٹوری نہ کریں، اور جب کرتے ہو، تو ہر قیمت پر ہر صررت میں ہر حالت میں اپنی سٹوری کے ایک ایک لفظ پر آخری دم تک قائم رہو، اس نے قبائلی صحافیوں کوحوصلہ دیا، صرف جینے کا نہیں بلکہ سر اٹھاکر جینے کا حوصلہ دیا، اس نے قبائلی علاقوں میں صحافت اور صحافیوں کوروشباس کرایا، اس نےصحافت میں نئی نئی کھوج سمجھائی، اس نے قبائلی علاقوں میں صحافت کو گھر گھر پہنچانے کا سہرا اپنے سر رکھا، اس نے قبائلی علاقوں میں ہر صحافی کے درد اپنا درد سمجھ کر اس کے خلاف آواز اٹھائی اور وقتاً فوقتاً اپنی اٹھائی گئی آواز کی قیمت بھی آداکردی، اس نے ہر جبر کا اس قدر خندہ پیشانی سے سامنا کیا، کہ خود جبر کو بھی شرمسار ہونا پڑا، سیلاب محسود کی شخصیت اتنی مظبوط تھی، کہ تاریخ کو بھی ان کے ساتھ چل کر ان کے ساتھ بدلنا پڑا، اس لئے وہ نہ صرف تاریخ کا حصہ بن گئے، بلکہ تاریخ کے جس پتے پر سیلاب محسود لکھا ہوگا، وہ پتا خود پر فخر محسوس کریگا، سیلاب محسود نہ صرف ایک تگڑے کہنے کا مستحق اور سچائی پر ڈت جانے والے صحافی تھے، بلکہ وہ ساز سروں ، دل و گزارکے ایک نفیس شاعر بھی تھے، جو مجاز میں رہتے ہوئے حقیقت کی طرف اس کمال سے پرواز کرتے کے سامنے والے مجازی دنیامیں بیٹھ کر حقیقی معراج سے لطف اندوز ہوتے، اسے شاعری میں بھی یہ کمال حاصل تھا، کہ وہ لفظوں سےاس قدر پاکیزہ اورنفیس انداز اپناتے ، کہ خود الفاظ انگشت براندان رہ جاتے، انہوں نے شاعری میں محبوب کے رخساروں کو بہت ہی کم چھڑاہے، البتہ قبائلی نوجوانوں کے خشک ہونٹوں اور جلے ہوئے چناروں کی بو ان کی شاعری کی ہر مقطع سے عیاں ہے، ان کی شاعری میں بے حسی اور قبائلی مظلوموں کی آہیں اور سسکیاں اس قدر محسوس کی جاسکتی ہے، کہ سننے والا خود کو اس منظر میں محسور سمجھنےلگتاہے، سیلاب محسود نے بہت ہی دیدہ دلیری کے ساتھ صحافت کا آغاذ کیا تھا، اسی نڈر پن کو اپنے آخری رپورت تک قائم رکھا، خدا سیلاب محسود صاحب کے قبر کو نور سے منور کردیں، کہ انہوں نے خود کو مشغل بناکر بہت سو کے زندگیوں اور زہنوں میں روشنیاں پھیلائی تھیں، وہ ہمارے دوست ہمارے چچا ، ہمارے رہبر، ہمارے استاد اور ہمارے لیڈر تھے، خدا ان کو جمت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور لواحقین کو صببر جمیل فرمائیں، آمین ثم آمین،

اپنا تبصرہ بھیجیں