شاخیمار ویلفئیر سوسائیٹی، جہا لت کے اندھیروں میں روشنی کی ایک کرن، تحریر: ناصر داوڑ

شمالی وزیرستان کے پُرفضاء مقام رزمک کے قریب گھنے جنگلات میں گھیرا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس کو شاخیمار کہتے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے پسماندہ علاقوں کی اگر بات ہو تو شاخی مار کا بھی لازمی ذکر ہوگا کیونکہ یہاں آج تک کسی حاکم وقت کی نظر نہیں گئی تاہم اب حالات بدل رہے ہیں اور شاخیمار کے نوجوانوں نے اپنی مدد اپ کے تحت ایک ویلفئیر سوسائیٹی بنائی ہے جس کا فوکس تعلیم پر ہے۔ اس سوسائیٹی کے بنانے والوں کواپنے علاقے کے مسائل کا ادراک بھی ہے اوران کے پاس شائد اس کا حل بھی موجود ہے۔
شاخیمار ویلفیئر سوسائیٹی کے صدر حسین احمد نے دی خیبرٹائمز کو بتایا ہے، کہ اس نے قبیلے کے دیگر لوگوں کے ساتھ مشاورت کرکے بچوں اور بچیوں کو علم کے حصول کیلئے تگ و دو شروع کردی ہے، جس کی کوششوں کو کافی پزیرائی مل رہی ہے،
حسین احمد کہتے ہیں، کہ اس نے ان کے علاقے کے بچوں اور بچیوں کی تعلیم کے حصول پر توجہ مرکوز کی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ تعلیم یافتہ مائیں ہی پڑھے لکھے قوم کو جنم دیتی ہے، اس لئے اس نے بچیوں کو علم کی روشنی سے منور کرنے پر خصوصی توجہ دی ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ ہے کیا ؟ اس بارے میں شمالی وزیرستان کے ایک سماجی کارکن اوریوتھ اف وزیرستان کے سابقہ صدر نور اسلام داوڑ نے بتایا کہ علم حاصل کرنے کے احساس سے قبل یہاں کے 98 فیصد تعلیمی ادارے یا تو پیسے دیکر اپنی جائیداد سمجھ کر تعمیر کئے ہیں، یا مقامی پولیٹیکل انتظامیہ ان کی خدمات یا جاسوسی کے بدلے تعلیمی منصوبے دے رہے تھے، محکمہ تعلیم نے بھی یا تو پولیٹیکل ایجنٹ کو خوش کرنے یا اپنے جیبوں کو گرم کرکے غلط فیزیبیلیٹی رپورٹ پیش کرکے ایسے مقامات پر منظوری دی ہے، جہاں اسکول کی تعمیر کی ضرورت تھی ہی نہیں، یا اس مقام پر پہلے سے ایک اسکول کے بجائے کئی اسکولز قائم ہے، اور بہت سارے ایسے مقامات ہیں، جہاں اسکول کے قیام کی اشد ضرورت ہے، لیکن شائید وہاں نہ تو کسی نے پیسے خرچ کرکے اسکول کی عمارت بنائی ہے؟ یا جاسوسیاں ، نہ کرکے وہاں اسکول قائم نہیں ہے۔ اگر ہے تو کسی نے یا تو اننتظامیہ کی خدمات کرکے اسکولز کی عمارت صرف ایک دو کلاس فور کی نوکری کے حصول کیلئے یہ اسکولز کی عمارتیں کڑی کی ہیں، یا انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بناکر ان کی بوٹ پالش کرکے ان کے بدلے کوئی سرکاری اسکول کا عمارت کھڑا کردیا ہے، نوراسلام کے مطابق دور جدید میں بھی شمالی وزیرستان میں سینکڑوں ایسے تعلیمی ادارے قائم ہیں جس کی عمارتیں بطور حجرہ مہمان خانہ یا مالک مکان اسے بطور گھر استعمال کررہے ہیں، وہاں اگر اسکول کی ضرورت ہے بھی تو مالک مکان اسے اپنا جاگیر تصور کرکے اپنے لئے استعمال کرتا ہے، سنکڑوں اسکولز مالک مکان اسکول کو بطور کاروبار چلارہے ہیں، جو بھی محترم حرام خور حرام خور آساتذہ کرام بھی سکول کے مالک مکان کو ان کی ماہوار تنخواہ میں مخصوص کمیشن وصول کرتے ہیں اور حرام خور اساتذہ کرام اپنے گھر پر آرام سے تنخواہ وصول کرتے ہیں، ایسے آساتذہ کرام میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں، اس میں ایسے عناصر بھی شامل ہیں، جو خود کو علاقے کے عمائدین تصور کرکے انتظامیہ کو بلیک میل کرتے ہیں، اور ساتھ ایک بڑی تعداد علما کرام بھی اس گنگا میں ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جس کی سزا عام شہری اٹھارہے ہیں۔
ایک اورشہری محمد صادق کہتے ہیں، کہ اس پر وقت گزر گیا ہے، اب ان کی خواہش کے کہ ان کے بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کریں، لیکن یہاں جو اسکولز ہے وہ بند ہے، بااثر شخصیات ان کے مالک مکان ہیں، جواسکول کی عمارت کو اپنے گھر کا حصہ بنائے ہوئے ہیں، اسے بھی کسی نے مفت میں نہیں دی ہے، بھاری رشوت دیکر سکول کی تعمیر کی منظور لی ہے، اب وہ سرکاری سکولوں کو اپنی جائیدادیں سمجھتے ہیں، جس پر کلاس فور کی نوکریاں بھی ہیں، جبکہ اس سکول پر متعین اساتذہ سے بھی کمیشن وصول کرتے ہیں،
اب شاخیمار ویلفیئر سوسائیٹی نے جہل کے اندھیروں کے خاتمے کے خلاف جو جہاد شروع کررکھا ہے، اس کو اگر ایسا ہی جاری رکھا گیا، تو عنقریب شاخیمار اپر اور لوئی کا ہر بچہ اور بچی علم کی روشنی سے منور ہوسکینگی۔
پہاڑی سلسلے میں اسمان تلے موجود سکول کی تیسری جماعت کی طالبہ میمونہ خان نہایت شوق سے سکول آتی ہے، وہ کہتی ہے، کہ جس دن بارش ہو یا موسم نا خوشگوار اس دن ان کی سکول نہیں ہوتی، چونکہ عمارت ہے نہیں، پھر وہ سارا دن دکھی ہوتی ہے، اور پھر بھی وہ اسکول کیلئے استعمال کرنے کی جگہ کا چکر لگالیتی ہے۔

محمد صابر ایک شہری کہتے ہیں، کہ اس کی پانچ بچیاں ہیں، جو سب پہاڑی سلسلے اور اسمان تلے اس اسکول میں بہت شوق سے آتی ہے، بلکہ خود محمد صابر کا شوق ہے، کہ ان کی پانچوں بچیاں تعلیم حاصل کریں، لیکن کبھی سرد موسم کبھی گرم موسم، چھت ، چادر اور چاردیواری کا نہ ہونا آڑے آجاتا ہے، روزانہ ان کی بچیاں اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتی، وہ کہتے ہیں، کہ انہیں نہایت افسوس اس بات کا ہے، کہ جب بچیاں تھوڑی بڑی ہوجائیں، پھر قبائلی معاشرہ ہونے کے ناطے وہ اپنی بچیوں پر تعلیم کے دروازے اس لئے بند کرینگے، کہ یہاں نہ تو کو چھت ہے نہ چادر اور چاردیواری۔۔۔۔
اگر حکومت یا محکمہ تعلیم ان کے بچیوں کے مستقبل کیلئے سوچ لیں اور بچیوں کے اسکول کا انتظام کریں تو ان کی بچیاں تعلیمی میدان میں کسی سے پیچھے نہیں رہینگی۔ لیکن افسوس کہ یہاں بچیوں کیلئے کوئی سکول نہیں ہے۔
شاخیمار ویلفیئر سوسائیٹی کے صدر حسین احمد کا کہنا ہے، کہ اگر یہاں بچیوں کی تعلیم کیلئے ایک سرکاری ہائی اسکول کردیا گیا تو ان کی بچیاں جو انتہائی قابل ہے، وہ بھی زندگی کی دوڑ دھوپ میں شامل ہوسکینگے، کوئی عمارت نہیں، اس لئے مستقل طور پر اس منصوبے کو آگے لے جانے کیلئے کوشش تو کررہے ہیں، بلکہ یہاں ہر قبائلی خاندان کی خواہش ہے، کہ ان کی بچیاں پڑھے، لیکن آخر نوبت آتی ہے، قبائلی معاشرے اور پردے کا جو

اپنا تبصرہ بھیجیں