ہفتے کے روز میرعلی سے میرانشاہ پریس کلب جانے کیلئے نکلا تو خدی کے مقام پر پاک افغان شاہراہ یعنی مین بنوں میرانشاہ روڈ پر مال بردار اور مسافر گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں کھڑی ہیں کچھ لوگ پیدل نکلنے کی ناکام کوششیں کر رہے تھے تو کچھ لوگ اپنی اپنی گاڑیوں کے پاس چہل قدمی کرتے دیکھے گئے۔سڑک پر کئی مقامات پر کالے دھویں کے بادل اور اگ دیکھائی دے رہا تھا اور کچھ مقامات پر درختوں کے تنے اور منوں وزنی پتھر رکھ کر سڑک کو بند کیا گیا تھا۔ کچھ جان پہچان کے مقامی لوگوں نے خد اخدا کرکے راستہ دیدیا اور خدی کی حدود سے اگے نکل گیا تو دیکھا کہ ایک کلومیٹر کے بعد عیدک قبیلے کے سینکڑوں نوجوان ڈھول کی تھاپ پر دیوانہ وار رقصاں تھے ہمارے ایک دوست اس جلوس نما مظاہرے کی قیادت کررہے تھے اسی جان پہچان کا فائدہ اٹھا کر عیدک سے بھی اگے نکل گیا تو فقط ایک ہی کلومیٹر کے بعد نورک کے مقام پر ایک الگ جم غفیر جمع ہے گوکہ اب تک انہوں نے روڈ کو بند نہیں کیا تھا لیکن سڑک کے کنارے جمع شدہ مجمع میں شامل افراد کے تیور دیکھ کر لگ رہا تھا کہ بس کچھ ہی دیر میں یہ بھی روڈ کو بند کرنے کیلئے منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ خیر جوں توں کرکے میرانشاہ پریس کلب پہنچ گئے تو سہ پہر کو واپسی پر پہلے سے ہی پریشانی نے گھیر رکھا تھا کہ اب واپسی کیسے کی جا ئے گی۔ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ نورک پہنچتے ہی نہ صرف بنوں کی طرف جانے والی گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں کھڑی تھیں بلکہ پولیس اور لیویز فورس کے سینکڑوں اہلکار بھی موقع پر موجود تھے جبکہ پاس ہی پتھریلی زمین پر چٹائیاں بچھا ئے اسسٹنٹ کمشنر میرعلی عباس افریدی اور ساتھ میں چند ایک جرگے کے اراکین سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے تھے اور صورتحال پر غور و فکر کر رہے تھے۔
جرگے کو وہیں پہ چھوڑ کر ہم نے پہاڑی علاقے میں کئی کلومیٹر کا راستہ طے کردیا اور تین کلومیٹر کا فاصلہ کوئی تین گھنٹوں میں طے کرکے گھر پہنچ گئے لیکن ذہن میں بار بار ایک سوال سر اٹھا رہا تھا کہ شمالی وزیرستان کے اس سرزمین کو کس کی نظر لگ گئی ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں سے جب دہشت گردی کی افات سے سانس لینے کیلئے وقت ملتا ہے تو خود اپنے درمیان بیک وقت کئی کئی قبیلوں کے تنازعات سر اٹھاتے ہیں کیا یہ ایک اتفاق ہے یا اس کے پیچھے بھی کوئی نادیدہ وقت ہے جو ہمیں اپس میں لڑوانے کیلئے سرگرم ہے۔ چلو اگر کچھ دیر کیلئے مان بھی لیا جائے کہ ان سب تنازعات اور معاملات کے پیچھے کوئی ہے تو بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جرگے اور مراکے کے روایات کے حامل یہ لوگ جو صدیوں سے بغیر کسی حکومت کے پُرامن بقائے باہمی کے اصولوں کے مطابق زندگی گذارتے چلے ارہے ہیں، کیوں اتنے گر چکے ہیں کہ انہیں نہ اپنی روایات کا پاس ہے اور نہ ہی زندگی کے دیگر معاملات کو یہ لوگ سیریس لے رہے ہیں۔ ہم اب بھی اپنے بچوں کو بندوق، کلہاڑے، ڈنڈے اور خنجر ہاتھوں میں تھما کر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ کیوں ہمیں بیس سال سے دہشت گردی، خونریزی، ذبح شد ہ اور مسخ شدہ لاشوں، اپریشنوں، توپوں، میزائلوں، بمباریوں، بے دری اور بے گھری، راشن کیلئے قطاروں میں اٹھائے جانے والے ذلتیں اور ہمسائیگی کی رسوائیاں، متائثرین اور ائی ڈی پیز جیسی القابات و خطابات بھی ہمیں سبق نہیں دے سکے۔ آخر ہمارا مسئلہ کیا ہے اور علاج کیا ہے۔ کیا اس میں قصور سارے کا سارا ہمارا ہے یا حکومتی اداروں کی غفلت، لاپرواہی اور ناانصافیاں ہی تمام مسائل کو جنم دے رہی ہے۔
شمالی وجنوبی وزیرستان گذشتہ بیس سال سے مسائل و مشکلات کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے میں جکڑے ہو ئے ہیں،اندرونی اور بیرونی شدت پسندوں کی امد سے امن و امان کے گہوارے کہی جانے والے یہ علاقے اج اس حد تک بدنام ہو چکے ہیں کہ ان علاقوں کی مٹی سے جنم لینے والے بھی یہاں جانے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں۔ اپریشن راہ نجات اور اپریشن ضرب عضب کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ یہاں کے لوگوں کے ذہنی معیار میں کچھ نہ کچھ تبدیلی اجائے گی اور سابقہ قبائلی زندگی کے بجائے جدید دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر ایک نئی صبح کا اغاز کرینگے، یہاں بچوں کی تعلیم پر توجہ دی جائیگی اور اپنے انے الی نسلوں کو ایک صحتمند ماحول فراہم کیا جائیگا جہاں وہ ازادی کے ساتھ بلا خوف اپنی زندگیاں گذار سکے گی لیکن کیا کریں کہ اپریشن کے بعد مرجر بھی ہوا، یہاں عدالتیں بھی قائم ہو ئیں، پولیس فورس بھی اگئی، فوج تو پہلے سے ہی موجود تھی، پولیٹیکل ایجنٹ کی جگہ ضلعی انتظامیہ نے سنبھالی اور ایف سی ار کے بجائے سی پی سی اور سی ار پی سی کے قوانین لاگو ہوئے لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ ان سب کی موجودگی میں ہی یہاں اگر نہ بدلا تو ہمارے روئے وہی کے وہی رہے ہیں۔ قارئین کو شاید حیرت ہو کہ یہاں صرف میرعلی سب ڈویژن میں ہی ایپی، مادی خیل کا تنازعہ، زیرکی کے اپنے درمیان پہاڑی کی تقسیم کا تنازعہ، خیسور کے علاقے میں اراضی کے تنازعات، خدی اور مچی خیل، عیسوڑی اور مچی خیل، عیدک اور بورا خیل، نورک، عزیز خیل، حکیم خیل، اور میرانشاہ کے علاقے میں الگ تنازعات، رزمک سب ڈویژن میں بھی ایسے ہی تنازعات سب ہمارے رویوں پر غمازی کررہے ہیں لیکن نہ تو اس کا حل ہمارے عمائدین کے پاس ہے جو کبھی مشکل ترین تنازعات کو منٹوں میں حل کیا کرتے تھے اجکل شاید ان پر بھی لالچ اور بے حسی کے خول چڑھے ہو ئے ہیں اور یا پھر انتظامیہ کمزور پڑگئی ہے لیکن ساتھ ہی اہل عقل و دانش یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں اختیارات کس کے پاس ہیں انتطامیہ کے پاس یا پولیس کے پاس اور یہ کہ اگر عدالتیں قائم ہیں تو پھر سابقہ جرگہ اور رواج اب تک کیوں بروئے کار لایا جا رہا ہے اور اگر یہ اب تک قابل عمل ہیں تو پھر مرجر کی ضرورت ہی کیا تھی؟؟ کسی کے پاس کوئی جواب نہیں کوئی حل نہیں، ایک اندھیر نگری کی کیفیت ہے اور میری ناقص رائے میں اس علاقے کے لوگوں کواب اپنی رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی، ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی انے والی نسلوں کیلئے کس قسم کا وزیرستان چھوڑ تے ہیں، کلہاڑیوں، ڈنڈوں، بندوقوں اور خنجر سے لیس وزیرستان یا پھر ایک پُرامن اور تعلیم یافتہ افراد سے مزین وزیرستان۔ ہمیں تاریخ کے اس نازک موڑ پہ فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ نظام کے انتظار میں یہاں رہی سہی زندگی کے اثار بھی شاید جلد ختم ہو جائینگے۔