چلو–ھم ھوئے کرونا کے حوالے… تحریر: شیراز پراچہ

چلو–ھم ھوئے کرونا کے حوالے…
شیراز پراچہ
حکومت نے لاک ڈاون میں نرمی کا اعلان کر کے ہمیں کرونا وائرس کے حوالے کر دیا ھے-یہ ایک بڑا جواء ھے- لاک ڈاون میں نرمی کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد بازاروں اور گلی کوچوں میں نکل ائی ھے- عوام یہ سمجھ رہے ھیں کہ یہ بیماری ختم ھو چکی ھے- کرونا وائرس کا جو خوف تھا وہ ختم محسوس ہوتا ہے- پہلے بھی پاکستان میں لوگ اس خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھےلیکن اب جزوی نرمی کو مکمل نرمی سمجھ لیا گیا ھے– اس بد احتیاطی کا نتیجہ خطرناک نکل سکتا ھے-
حکومت کی ھوشیاری یہ ھے کہ اگر یہ بیماری پھیلے گی اور زیادہ نقصان ھو گا تو حکومت یہ کہہ سکتی ھے کہ ھم تو عوام کو بار بار خبردار کرتے رھے کہ احتیاط کریں لیکن عوام نے ھماری ھدایات عمل نہیں کیا اور باہر نکلے جس کی وجہ سے نقصان ہوا- لیکن اگر اس نرمی کے بعد یہ مہلک وائرس بہت زیادہ نہیں پھیلتا اور جانی نقصان بھی کم ھوتا ھے تو حکومت اس بات کا کریڈٹ لے سکتی ھے کہ اسکی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں اس وباء سے زیادہ نقصان نہیں ھوا-
دنیا بھر میں ڈاکٹرز اور ماہرین اس وقت تک یہ نہیں جا نتے کہ کرونا وائرس کا اثر مختلف لوگوں پر مختلف کیوں ھوتا ھے، ایسا کیوں ھے کہ بعض ممالک میں کرونا وائرس کے ھاتھوں ھلاکتیں حیران کن حد تک کم اور بعض ممالک میں تشویشناک حد تک زیادہ ھیں- اس موضوع پر تحقیق جاری ھے اور شاید کچھ عرصہ بعد پتہ چلے گا کہ ایسا کیوں ھوا, فی الوقت اسکی وجہ کوئی نہیں جانتا-
کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے بعض ممالک نے “ھرڈ ایمونٹی ” (ریوڑ کی ما نند مدافعت) وا لی حکمت عملی اپنائی ھے ان میں سویڈن اور بیلاروس شامل ھیں- سویڈن نے لاک ڈاون نہیں کیا وہاں سکولز، ریسٹورینٹس، اور کاروبار کھلے ھیں اور معمولات زندگی بحال ھیں- سویڈن کی حکومت کا موقف ھے کہ وہ لاک ڈاون کے بغیر د دیکھنے کی کوشش کر رہی ھے کہ یہ وائرس کس طرح سے پراگرس کرتا ھے- سویڈن میں بڑی عمر کے لوگوں کی ھلاکتیں ھوئی ھیں جو کیئر ھاوسز میں مقیم تھے جس پر حکومت پر تنقید بھی کی جا رہی ھے لیکن یورپ میں سویڈن واحد ملک ھے جس نے لاک ڈاون نہی کیا اور وہ “ھرڈ ایمونٹی ” کے اصول کے تحت اس مرض کو ڈیل کررہے ھیں-
اس حکمت عملی پر عمل کر نے وا لا دوسرا ملک بیلاروس ھے- اس ملک میں کرونا وائرس ایا ھے مگر اسکی حکومت لاک داون کرنے سے انکار کررہی ھے- بیلاروس کے صدر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ھم ووڈ کا شراب پینے والے لوگ ھیں ھمیں یہ بیماری کچھ نہیں کہے گی-
ماہرین کا کہنا ہے کہ “ھرڈ ایمونٹی ” کورونا وائرس کے خلاف کام نہیں کرے گی کیونکہ یہ ایک نیا وائرس ہے۔ اس وبائی مرض کے لئے کوئی ویکسین نہیں اور جب تک کہ کوئی ویکسین تیار نہیں کی جاتی, وائرس سے بچنے والا واحد راستہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ہے۔
تاھم ماہرین کی رائے کے باوجود سویڈن اور بیلاروس کی حکومتیں “ھرڈ ایمونٹی ” کے اصول کے تحت اس بیماری سے نمٹ رہی ھیں- برطانیہ نے بھی شروع میں یہی حکمت عملی اپنائی تھی لیکن جب وہاں کے وزیر اعظم بورس جانسن اس مرض میں مبتلاء ھوئے اور لوگوں نے بہت تنقید کی تو وہ اس سے پیچھے ھٹ گئے اور لاک ڈاون کردیا-
وزیراعظم عمران خان کے برطانیہ کی موجودہ حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات ھیں- شاید برطانوی تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع میں عمران خان لاک ڈاون کی مخالفت کرتے رہے مگر بعد میں انہیں لاک ڈاون کی جانب انا پڑا، لیکن اب انہوں نے اس میں نرمی کردی ھے- اس نرمی کے نتیجے میں لوگ جوق در جوق بازاروں کی طرف نکل ائے ھیں- اب اگر خدانخواستہ ھلاکتوں میں اضافہ ھوا تو حکومت یہ کہنے میں حق بجانب ھوگی کہ ھم نے اپکے مطالبے پر اور اپکے دباو پر لاک ڈاون میں نرمی کی مگر اسکا مطلب یہ نہیں تھا کہ اپ ہجوم کی شکل میں بازاروں اور گلی کوچوں میں نکل ائیں-
دوسری طرف اس نرمی اور بے احتیاطی کے باوجود اگر پاکستان میں زیادہ جانی نقصان نہیں ھوتا جیسا کہ حکومت کا خیال ھے کہ مئی کے اخر تک چند ھزار کے قریب لوگ کرونا وائرس سے متاثر ھو سکتے ھیں اور ھلاکتوں کی تعداد بھی بہت زیادہ نہیں ھوگی تو حکومت اسکا کریڈٹ لے گی- تاھم ریسرچرز اور سائینسدان بعد میں اس وجہ کو دریافت کرینگے کہ اس وائرس نے پاکستان اور بھارت میں لوگوں کو اس طرح متاثر کیوں نہی کیا جس طرح اس نے امریکہ اور یورپ میں جانی نقصان کیا-
یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان میں کرونا وئرس کے متاثرین کی تعداد کافی زیادہ ھو مگرھم چونکہ کم ٹیسٹ کروا رہے ھیں اس وجہ سے اب تک نقصان بھی کم ظاہر ہوا ہے – اس بات کا بھی امکا ن ھے کہ ایسی اموات بھی ھورہی ھوں جنکو اس لئے ریکارڈ پر نہ لایا جا رھا ھو اور لواحقین اس بناء پر پوشیدہ رکھتے ھوں تا کہ مرحوم کی اخری رسومات متاثر نہ ھوں اور لوگ کثیر تعداد میں بے خوف ھو کر جنازے میں شرکت کر یں جو کہ ھمارے سماج اور ثقافت کا ایک حصہ ھے-
یہ صورتحال ایک بڑا رسک ھے جس میں زمہ داری حکومت کے ساتھ ساتھ عوام پر بھی ھے لیکن عوام اس خطرے کو سنجیدہ نہیں لے رہے- اگلے ایک ماہ کے دوران اگر لوگوں کی بڑی تعداد متاثر ھوتی ھے اور انکی حالت تشویشناک ھوتی ھے تو پھر پاکستان کے ھسپتالوں اور ہیلتھ سسٹم میں اتنا دم خم نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرسکے،وینٹی لیٹرز نہیں ھیں، اتہائی نگہداشت کے پونثوں میں سہولیات نہ ھونے کے برابر ھیں- ایسے میں ہمیں ایک بڑے المیے کا سامنا ھو ہو سکتا ہے-
شیراز پراچہ

چلو–ھم ھوئے کرونا کے حوالے… تحریر: شیراز پراچہ” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں