اج سے بارہ سال پہلے پشتو فلموں کے بلا شرکت غیرے ہیرو اور پشتوفلموں کے شوقین لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بدرمنیر نے اس دارفانی سے کوچ کیا اور اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ گئے لیکن افسوس کہ بدر منیر کی برسی پر کسی پاکستانی میڈیا نے ان کا ذکر تک نہیں کیا ۔ بدر منیر جس کے چلے جانے سے پشتو فلموں کی وہ عمارت جو بدرمنیر کی بے ساختہ اور جاندار اداکاری سے کھڑٰ ہوئی تھی، دھڑام سے گر گیا اور اج حال یہ ہے کہ کوئی غیرت مند پشتون پشتو فلموں کو دیکھنے کا روادار بھی نہیں ۔
بدرمنیر سوات کے علاقے مدین میں 1940 میں مولوی یاقوت خان کے ہاں شاگرام نامی گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد نے بچپن ہی سے انہیں چارسدہ کے ایک دینی مدرسے میں داخل کرایا لیکن ان کی طبیعت میں بے چینی کی وجہ سے وہ کچھ عرصے کے بعد مدرسے سے بھاگ گئے اور کراچی میں ایک ہوٹل میں محنت مزدوری شروع کی ۔ جب ان کے ہاں کچھ پیسے جمع ہوئے تو رکشہ خرید لیا اور کراچی ہی میں رکشی چلانا ان کا پیشہ بن گیا ۔ اس دوران انہوں نے بحری راستے سے بیرون ملک سفر بھی کیا لیکن وہاں سے ڈی پورٹ ہوئے ۔ ایک انٹرویو میں بدرمنیر نے خود اعتراف کیا کہ یہ ان کی زندگی کے سخت ترین دن تھے جس میں ان کو بے شمار تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ۔ جوں توں کرکے اور شدید مشکلات کے بعد جیسے ہی وہ کراچی پہنچے تو انہوں نے اپنے پہلے والے ہوٹل میں ایک بار پھر محنت مزدوری شروع کی ۔
بدر منیر کے بقول ان کے ہوٹل میں فلمی صنعت سے وابستہ لوگوں کی امد ہوا کرتی تھی جس کی وساطت سے وہ اس دور کے لیجنڈ اداکار اور چاکلیٹی ہیرو وحید مراد مرحوم کے اسسٹنٹ کی حیثیت کام شروع کیا ۔
وحید مراد کے ساتھ فلمی دنیا میں رہتے ہوئے بدر منیر کے دل میں بھی فلموں میں کام کرنے کی خواہش شدید تر ہوتی گئی ۔ اس دوران ہدایت کار عزیز تبسم نے پشتو فلم یوسف خان شیر بانو بنانے کا فیصلہ کیا ۔ یہ 1970 کے زمانے کی بات ہے کہ فلم بنانے کیلئے کہانی اور گانے تک علی حیدر جوشی نے لکھے لیکن مسئلہ یوسف خان کے کردار کیلئے کسی پشتون ہیرو کا انتخاب تھا جس کیلئے عزیز تبسم نے بہت سے لوگوں کے اڈیشن لئے لیکن کوئی بھی یوسف خان کے کردار پر پورا نہیں اتر سکا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اڈیشن کے دوران بدر منیر بھی ان کے ہمراہ ہو تے تھے لیکن معلوم نہیں کیوں عزیز تبسم کی نظر بدر منیر پر نہیں گئی تاہم جب ہر طرف سے مایوس ہوئے تو بدر منیر نظر ائے اور جب فلم کی شوٹنگ شروع ہوئی تو فلمی ناقدین نے پہلے سے ہی اس فلم کی کامیابی کے اعلانات کئے ۔ بدر منیر مرحوم نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ فلم کی ریلیز سے قبل وہ اور فلم کی ہیروئن یاسمین خان نے فلم کی کامیابی کیلئے ڈھیر ساری دعائیں کیں۔کیونکہ پشتونوں کو سنیما تک لانا ایک مشکل کام تھا لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو توقعات سے بڑھ کر کامیابی حاصل کی جس کے بعد بدر منیر اور یاسمین خان پشتو فلموں کی ضرورت بن گئے ۔ یوسف خان شیر بانو کے بعد ایک اور فوک کہانی ادم خان دُرخانئی ریلیز ہوئی تو پشاور کے فردوس سنیما میں بدرمنیر بھی فلم دیکھنے گئے۔ فلم کے اختتام پر فلم بینوں نے بدر کو کاندھوں پر اٹھایا اور فردوس سے قصہ خوانی تک جلوس کی شکل میں لے ائے ۔ بدر کا کہنا تھا کہ پشتون بھائیوں کی اس محبت کو میں کبھی نہ بھول سکا ۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق بدر نے مجموعی طور پر 550 فلموں میں کام کیا جس میں چار سو سے زائد پشتو میں اور بقیہ اردو ، پنجابی اور سندھی وغیرہ میں بنائے گئے تھے ۔ پشتو فلموں کے فلم بینوں کا یہ عام وطیرہ تھا کہ جب بھی فلم میں بدر منیر ظاہر ہوتے تو فلم بین ان کا استقبال کھڑے ہو کر اور سیٹیاں بجا کر کیا کرتے تھے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پشتو فلموں میں اصف خان ، نعمت سرحدی ، عمر دراز، جمیل بابر ، بیدار بخت اور اسماعیل شاہ جیسے اداکاروں نے بھی اپنے طور پر بہت اچھا کام کیا لیکن بدر جیسی شہرت اور مقام اج تک کسی اداکار کا حاصل نہ ہوسکی ۔
انہوں نے اپثر فلمیں یاسمین خان کے ساتھ کیں اور پشتون فلم بینوں نے بھی بدر اور یاسمین کی جوڑی کو حد درجے پسند کیا لیکن اس کے علاوہ بھی بدر نے جن اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا ان میں ثریا خان ، نمی ، مسرت شاہین اور شہناز وغیرہ شامل ہیں ۔ پشتو کے علاوہ بدر نے اردو اور پنجابی فلموں میں بھی اس وقت کے ٹاپ کی اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا جن میں صبیحہ ، بابرہ شریف، نشو، نیلی اور روحی بانو جیسی اداکارائیں شامل ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ 1980 میں وحید مراد ایک ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہوئے جس سے ان کا فلمی کیرئیر تقریباً ختم ہو کر رہ گیا اور وحید مراد پائی پائی کے محتاج ہو گئے لیکن بدر نے اپنے محسن کو اس وقت بھی سہارا دیا اور پشتونولی کی روایات کا پاس رکھتے ہوئے وحید مراد کو اپنی سُپر ہٹ پشتو فلم ” پختون پہ ولایت کے” میں ایک اہم رول میں سائن کیا لیکن وحید مراد اس کے بعد بھی فلمی دنیا میں قدم نہ جماسکے مگر بدر نے اپنی کوشش ضرور کی جس کے بعد وحید مراد جلد ہی دنیا سے رُخصت ہوگئے ۔
بدر منیر نے پشتو فلموں میں بہت سے لازاوال کردار کئے اور پشتون ثقافت پر مبنی بے شمار سُپر ہٹ پشتو فلمیں بنائیں جن میں یوسف خان شیر بانو، ادم خان دُرخانئی ، دہقان ، پختون پہ ولایت کے ، بنگڑی ہتھکڑئی ، دا پختون طورہ ، خانہ بدوش اور اوربل جیسی ال ٹائمز سُپرہٹ موویز شامل ہیں جن کو اج بھی بہت سے لوگ دیکھنا پسند کرتے ہیں ۔ بدر منیر کی اخری پشتو فلم ” زما پاگل جنانہ ” نمائش کیلئے پیش ہوئی لیکن پشتو فلموں کے یہ لیجنڈ اداکار اپنی فلم کی نمائش سے پہلے ہی اس دارفانی سے اج سے ٹھیک بارہ سال پہلے 11 اکتوبر 2005 کو کوچ کر گئے اور بدر منیر کی رُخصت کے ساتھ ہی پشتو فلموں کے عروج کا دور بھی اپنے اختتام کو پہنچا بلکہ پاکستان فلم انڈسٹری کو ہی زوال انا شروع ہوا اور ایک وقت ایسا بھی ایا کہ جب پشتو فلموں کے نام بے حیائی اور فحاشی کا ایک سیلاب اُمڈ ایا جس کا پشتون کلچر کے ساتھ دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جب تک بدر منیر زندہ رہے تب تک کسی کوبھی پشتون کلچر کو مسخ کرنے کی جرات نہ ہوئی اور جب پشتو فلموں میں فحاشی اور عریانی کا دور شروع ہوا تو نہ صرف بدر منیر بلکہ یاسمین خان نے بھی شوبز کو خیرباد کہہ دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بلا خوف تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ بدر منیر کے انے سے پشتو فلمیں شروع ہوئی اور جانے سے ختم ہو ئی ۔ وہ بجا طور پر اپنی ذات میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے اور نہ صرف ایک اداکار تھے بلکہ ایک کٹر پشتون اور سادگی سے مرصع انسان بھی تھے ۔ خدا اس کی روح کو غریق رحمت کریں ۔