نوے دن میں تبدیلی ؟؟ تحریر یاسر حسین

تحریر: یاسر حسین

نوے دن میں صوبے کا نقشہ اور حالات تبدیل نہ کئے تو میرا نام تبدیل کر دیں ، تعلیم ، پولیس ، اور اسپتالوں کی حالت 90 دن میں تبدیل ہو گی ۔۔ رشوت کا بازار 90 دن میں بند ہو گا ۔۔ پشاور کو پھولوں کا شہر بنا کر دم لیں گے ۔۔ اور نجانے کیا کیا سہانے خواب دکھا کر 2013ء کے انتخابات میں ووٹ لے کر انصافیوں کی حکومت نے عوام سے انصاف شروع کیا ۔۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ، جب 2010ء میں مجھے میرے اس وقت کے ادارے نے تحریک انصاف کی بیٹ حوالے کی یہ ایک ابھرتی ہوئی جماعت ہے ، خان صاحب کا جب اور جس وقت جی چاہا ، پشاور پہنچے اور عوام کے بیچ پائے گئے، ہم بھی متاثر ہوئے کہ واقعی اب آنے والے وقتوں میں تحریک انصاف کو اقتدار میں آنا چاہیے تاکہ اب ملک کے حالات تبدیل ہو سکیں ۔۔ پھر کیا ۔۔۔ اس وقت کے صوبائی صدر اور آج کی قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر فورا میڈیا سے رابطہ کرتے اور ہم موقع پر پہنچتے ، خان صاحب ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین تین بار لوگوں سے ہاتھ ملاتے ، تو یقین ہو چلا کہ واقعی اب ملک کی تقدیر بدلنے والی ہے ، 12 مارچ 2012ء کو پشاور کے رنگ روڈ پر تحریک انصاف نے ایک جلسہ منعقد کر کے دیگر سیاسی جماعتوں کے اکابرین کے ہوش اڑا دیئے ۔۔ مئی 2013ء کو جب عام انتخابات ہوئے تو مجھے میرے اس وقت کے ادارے نے این اے 4 یعنی نواحی علاقوں کی ڈیوٹی حوالے کی ساتھ میں لائیو گاڑی اور دو کیمرہ مین بھی ۔۔ مجھے حیرانی اس وقت ہوئی جب نواحی علاقوں کے مرد و خواتین صبح سے ہی پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کر رہے تھے اور عمران خان عمران خان کر رہے تھے ، وہ تحریک انصاف کے امیدوار کی تصویر بعد میں اور خان صاحب کا انتخابی نشان بلا پہلے دیکھتے تھے ۔۔ شام ڈھلی تو صوبے کے چپے چپے سے تحریک انصاف کی جیت کے اعلانات ایسے شروع ہوئے جیسے خیبر پختونخوا کے عوام بس اسی انتظار میں تھے ۔۔۔ اس وقت پشاور گیارہ صوبائی اور چار قومی حلقوں پر مشتمل تھا ۔۔ آئی آئی پی ٹی آئی کے نعروں سے گلی گلی کوچہ کوچہ گونجنے لگا ۔ نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے پرویز خٹک کو وزیر اعلی بنانے پر اتفاق ہوا ۔۔۔ لیکن یہ میں ضرور بتانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کروں گا کہ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ کے گھر میں رات دو بجے پرویز خٹک صاحب کو وزیر اعلی بنانے کا باقاعدہ فیصلہ کیا گیا اور وہیں سے خان صاحب کو بھی فائنل رپورٹ دی گئی ،، چونکہ میں رات بارہ بجے سے آفتاب شیر پاؤ صاحب کے گھر میں ہی موجود تھا اور فورا ادارے کو خبر دی کہ پرویز خٹک کو وزیر اعلی بنانے پر اتفاق ہو گیا ہے اور یوں بریکنگ بریکنگ شروع ہوئی ،،، کیونکہ پرویز خٹک صاحب 2010ء تک پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر تھے اور وہ تحریک انصاف میں اچانک شامل ہوئے تو سیاسی پس منظر کا تجربہ رکھتے ہوئے انہیں اس بنیاد پر بھی وزیر اعلی بنانے کیلئے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نے بھی بھرپور حمایت کی ۔۔ پرویز خٹک نے مخلوط حکومت بناتے ہوئے قومی وطن پارٹی اور جماعت اسلامی کو ساتھ رکھ کر حکومت بنائی ۔۔ یوں اب شروع ہوئی تبدیلی ۔۔ آواز شروع ہوئی خٹک صاحب کی 90 دن میں سب سرکاری ادارے اپنا قبلہ درست کر لیں ورنہ 90 دن پورے ہونے پر قیامت ڈھا دوں گا۔ بیورو کریسی میں ہلچل مچ گئی ۔۔۔ کہ اب ہونے کیا والا ہے ۔۔ خان صاحب اسٹیج سے گرنے کی وجہ سے اسپتال میں تھے, انہیں وہیں خیبر پختونخوا میں کامیابی ملی ۔۔ پولیس کا نظام درست کرنے کے لئے پنجاب سے آئی جی ناصر درانی صاحب کو لایا گیا ۔۔ تعلیم کا نظام درست کرنے کے لئے مردان سے تعلق رکھنے والے عاطف خان کو وزارت سونپی گئی ۔۔ شوکت یوسفزئی صاحب کو صحت کا قلمدان دیا گیا ۔۔ شروع ہوئی تبدیلی ۔۔۔ خان صاحب کی حالت بہتر ہوئی تو انہوں نے پشاور کا دورہ کیا اور یہاں انہوں نے اور کچھ نہیں بلکہ احتساب کمیشن بنانے کا اعلان کیا ،، جتنی جلد بازی میں احتساب کمیشن بنا اتنی ہی تیزی سے اسے بند بھی کرنا پڑا ۔ یہ داستان پھر کبھی سہی، رمضان قریب تھا تو صوبے کے بڑے اسپتالوں میں مریضوں اور ان کے لواحقین کے لئے سحر و افطار کا ذمہ خیبر پختونخوا حکومت نے اٹھایا ۔۔ اور سات ارب روپے سحر و افطار کے لیے مختص کئے گئے ۔ اور میں پھر حیران ہوں کہ آج تک اس کا پتہ کیوں نہیں لگایا گیا کہ سحر و افطار کا وہ ٹھیکہ کن صاحب کو دیا گیا تھا ۔۔۔ خیر رمضان گزرا تو پرویز خٹک صاحب کو سحر و افطار کے ٹھیکے میں دال کالی نظر آنے لگی تو انہوں نے صحت کا قلمدان شوکت یوسفزئی صاحب سے لے کر صوابی کے نواب خاندان سے تعلق رکھنے والے شہرام ترکئی کو سونپ دیا ، کیونکہ وہ نوجوان بھی تھے اور عاطف خان صاحب کے بہت ہی قریبی دوست بھی ۔۔ اسی لئے تو شہرام ترکئی کے والد لیاقت ترکئی صاحب کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا گیا تو انہوں نے بھی اپنی لوکل پارٹی عوامی جمہوری اتحاد تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دی ، آتے ہیں اب تعلیم کی جانب ۔۔ تو میں غلط نہ ہوں تو 2013ء سے 2018ء تک خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں یقینا تبدیلی ضرور آئی تھی، ہے نہیں ۔۔ البتہ خیبر پختونخوا کے محکمہ پولیس کے نظام میں آئی جی ناصر درانی نے واقعی تبدیلی کی اور لوگوں کو امید ہو چلی کہ صوبہ اب بہتری کی طرف جانا شروع ہو گیا ہے ۔۔۔ 2016ء میں جب تحریک انصاف کے ان نئے سیاسی پرندوں کے پر نکلنا شروع ہوئے اور یہ شکار کے قابل ہوئے تو اور کسی کو نہیں بلکہ اپنے ہی وزیر اعلی پرویز خٹک کے خلاف میدان میں اتر پڑے ، کسی نے گو خٹک گو کا نعرہ لگایا توساتھ میں اپنی ہی حکومت کے خلاف فارورڈ بلاک بھی بنا لیا ۔۔ گو خٹک گو کا نعرہ لگانے والے کو پارٹی سے ہاتھ دھونا پڑے ، جیسے پرویز خٹک کے مد مقابل آنے والے ضیاء اللہ آفریدی کو مبینہ کرپشن کے الزام میں جیل کی ہوا کھانی پڑی اور پارٹی سے بھی نکالے گئے۔ عاطف خان بھی ان تین برسوں میں خود کو منجھا ہوا سیاستدان سمجھنے لگے اور انہوں نے بھی پنگا لے لیا پرویز خٹک سے ۔۔ عاطف خان اور پرویز خٹک کی محبت کا آغاز ہوا مالم جبہ اسکینڈل سے ۔ جس میں اس وقت کے وزیر کھیل اور آج کے وزیر اعلی محمود خان کے کردار نے پرویز خٹک کو اتنا متاثر کیا کہ انہیں 2018ء میں خیبر پختونخوا کی وزارت اعلی کے سنگھاسن پر بٹھا دیا گیا ۔۔ 2017ء تک پشاور کی خوبصورتی پر اربوں روپے لگائے گئے ،،2017ء کے اواخر میں یہ فیصلہ ہوا کہ کیوں نہ پشاور کے بے ہنگم ٹریفک کو لگام دینے کے لئے میٹرو بس سروس شروع کی جائے ، 57 ارب روپے ایشیائی ترقیاتی بینک سے لئے گئے اور 19 اکتوبر کو خٹک صاحب نے چھ ماہ میں منصوبہ مکمل کرنے کے اعلان کے ساتھ انتہائی عجلت میں بی آر ٹی منصوبہ شروع کر دیا اور آج تک شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا ۔۔ بلکہ صوبہ مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا گیا۔ پشاور آج مٹی اور دھول کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے ۔ صوبے میں بے روزگاری عروج پر ہے ، ہاں روزگار سے مالا مال اگر کوئی ہوا تو وہ ہے تحریک انصاف کا کارکن جو آج کا ٹائیگر ہے ، پھر بھی ہماری بھولی بھالی اور غیور عوام نے تحریک انصاف کو 2018ء میں ووٹ دیا لیکن اب تک ایسی کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی جس سے ایک عام شہری مطمئن دکھائی دیا ہو ،، تعلیمی معیار سے لے کر پولیس ریفارمز ، پہلے سے بھی زیادہ خراب حالت میں ہیں ۔۔ اسپتالوں کے ڈاکٹرز ابھی بھی آئے روز مختلف ایشوز پر احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔۔ پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے شہری آج بھی اللہ پاک کے بعد ہمارے موجودہ وزیر اعظم عمران خان سے کسی حد تک امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ صوبے کے حالات تبدیل کر سکیں ،، ورنہ اللہ کی ذات تو موجود ہے !!!

اپنا تبصرہ بھیجیں