“بابڑہ __ 12 اگست 1948___ پشتون کربلا” خصوصی تحریر: ایمل صابرشاہ

“بابڑہ __ 12 اگست 1948___ پشتون کربلا” خصوصی تحریر: ایمل صابرشاہ

یہ سرزمین تھی چارسدہ کی،

گاؤں تھا بابڑہ،

اور

پاکستان بننے کو ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا،

ملک بھر میں مسلم لیگ کی حکومت تھی، اور قائد اعظم محمد علی جناح ابھی زندہ تھے،

صوبہ سرحد (موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا) میں خدائی خدمتگار تحریک کے بانی اور سرخیل خان عبد الغفار خان ( باچا خان بابا ) کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کے حکومت کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے مسلم لیگ نے گرایا اور یوں صوبہ سرحد کا انتظام و انصرام مسلم لیگی “خان قیوم خان” نے سنبھال لیا،

باچا خان بابا اور انکے قریبی ساتھیوں ڈاکٹر خان صاحب، قاضی عطا اللہ، ارباب عبدالغفور اور کئی دوسرے متحرک افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا، آزادی ہند میں صف اول پر موجود حریت پسند خدائی خدمتگار تحریک پر پابندی لگا دی گئی، دفعہ 144 نافذ کر کے خدائی خدمتگاروں کو بھی گرفتار کرنا شروع کیا اور بحق سرکار انکی جائیداد ضبطی کا سلسلہ پھر شروع ہوا،

ان گرفتاریوں، پابندیوں، چھاپوں، ناجائز دفعات اور پشتون لیڈر باچا خان بابا کی رہائی کیلئے پشتون عوام کو خدائی خدمتگار تحریک کی طرف سے اطلاع موصول ہوئی کہ ایک پر امن احتجاج ریکارڈ کروانے کیلئے 12 اگست 1948 کو بروز جمعرات “غازی گل بابا مسجد بابڑہ چارسدہ” میں اجتماع منعقد ہوگی،

لہذا مقررہ دن پر 25,000 سے زائد پشتون نوجوان، بوڑھے، بچے اور باپردہ خواتین بابڑہ میں جمع ہوگئے،

خدائی خدمتگار تو روز اول ہی سے باچا خان بابا کے فلسفہ عدم تشدد کے پیروکار تھے۔

مگر پھر بھی قیوم خان نے اپنے اہلکاروں، پولیس اور پیراملٹری فورس کے بھاری نفری کو اس پر امن اجتماع پر بارود برسانے کا حکم دیا،

ایک ہی دن میں + 600 سے زائد شھید اور +1200 سے زائد نہتے پرامن پشتون شدید زخمی کر دئے گئے، مسلسل 45 منٹ تک فائرنگ کر کے 56,000 گولیاں چلائی گئی اور ظلم بالائے ظلم کہ انہیں چلائی گئی گولیوں کی قیمت 11395 روپیہ پھر خدائی خدمتگاروں سے لیا گیا اور اوپر سے الگ جرمانہ لگا کر 50000 روپیہ رائج الوقت وصول کیا گیا،

وہ منظر بھی اسی دن دیکھا گیا جب باحیاء چادر پوش پشتون خواتین سروں پر قران پاک اٹھائے گولیوں کے سامنے آکر “امن” کی صدائیں لگا رہی تھی مگر وہ ظالم قیوم خانی گولیاں پروردگارِ عالم کے کلام کو بھی چیر کر گزار دی گئی،

سینکڑوں کے تعداد میں شھیدوں کو دریائے کابل میں پھینک دیا گیا اور باقیوں کو اجتماعی قبروں سمیت دیگر پر اسرار طریقوں سے ٹھکانے لگا دیا گیا،

پھر اسی ہی رات قیوم خان نے چوک یادگار پشاور کے ایک جلسہ عام میں بابڑہ کے واقعہ کو “فتح مبین” گردانتے ہوئے کہا کہ “میں نے دفعہ 144 نافذ کر دی تھی، جب لوگ منتشر نہیں ہوئے تو تب ان پر فائرنگ کی گئی، وہ تو خوش قسمت تھے کہ پولیس کے پاس اسلحہ ختم ہو گیا ورنہ وہاں سے ایک بھی آدمی زندہ بچ کر نہ جاتا، یہ انگریزوں کی نہیں مسلم لیگ کی حکومت ہے اور اس حکومت کا نام قیوم خان ہے۔ خدائی خدمت گار ملک کے غدار ہیں، میں ان کا نام و نشان مٹا دوں گا، بابڑہ میں خدائی خدمت گاروں کو وہ سبق دیا ہے جسے وہ زندگی بھر یاد رکھیں گے”۔

بابڑہ کے سانحہ کو پشتون قوم نے “پشتون کربلا” کا نام سے کر امر کر دیا اور قیوم خان کو سرحد کے جنرل ڈائر کا خطاب دے کر ظلم کا ایک استعارہ بنا دیا،

اسی “پشتون کربلا بابڑہ” نے پشتون نسل کے ذہن پر ایک ایسی گہری “مقاومتی “چھاپ چھوڑ دی جو کہ اب تک ختم نہیں ہوئی بلکہ ان 75 سالوں میں بابڑہ کے طرز پر دسیوں مزید واقعات نے پشتون قوم کے سینہ کو ایسا زخمی کر دیا جو کہ اب بمشکل مندمل ہوگا۔

رد عمل کے طور پر پشتو زبان و ادب میں بھی سانحہ بابڑہ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہوا ہے اور اس “پشتون کربلا” پر دسیوں کتابیں، سینکڑوں مقالے اور مرثیے لکھے گئے۔

ذیل میں اس سانحہ کے حوالہ سے کچھ اشعار پیش خدمت ہے۔

معزرت کے ساتھ نوٹ

( ویب سائیٹ میں پشتو کے فونٹ کا مسلہ ہے، اس لئے پشتو کیلئے اردو کے فونٹ استعمال کررہاہوں )

مونگ د بابڑے شہیدان ھیر کڑی

مونگہ سپیسلی مشران ھیر کڑی

مونگ د میوند ملالئی نہ پیژنو

‫مونگہ آفکار د باچاخان هیر کڑی‬

تہ راتی اووایہ چی سہ پہ کربلہ کی شوی

ما پہ ٹکر او پہ بابڑی تبصرہ راوڑے۔۔۔

دا بیا می ولی سترگی د جیندی غوندہ بھیگی

دا بیا راتہ خبرے د بابڑے کوی سوک۔۔۔

د سوارلسم اگست دا جشن مو پہ سر سترگو خو

زما پہ سرو وینو کی سرہ بابڑہ ہم یادہ کڑئی۔۔۔۔۔

موری آ سرے جامے مو راکڑہ

صبا بابڑہ کے جلسہ دہ ورلہ زمہ۔۔۔۔

د خوئیندو غیگ کے ماشومان

پہ سر نیولے وو قرآن۔۔۔۔۔۔۔

آواز ئے دہ وو پہ میدان

فخر افغانہ تا گٹم پہ خپلہ مرمہ

مرگیہ مہ رازہ درزمہ ۔۔۔۔۔

شہید بہ د جنت پہ اور کے پروت وی

گپ نہ دے چے زما نہ قیوم خان جنت تہ لاڑ شی

چے د بابڑے پہ کے ذکر نہ وی

پہ اخبارونو باندے سہ کووم زہ ۔۔۔۔۔

د غازی گل بابا جومات وو د پوزونو مورچہ

د خدائی لہ کورہ ھم پہ روغ صورت ستون شوے نہ ئیم

د سپین ملنگ پہ تکو سرو وینو مے کر شوے دے

سہ پہ آسانہ پر دے خاورہ زرغون شوے نہ ئیم۔۔۔۔

مونگ د بابڑے شہیدان ھیر کڑی

مونگہ سپیسلی مشران ھیر کڑی

مونگ د میوند ملالئی نہ پیژنو

…….‫مونگہ آفکار د باچاخان هیر کڑی‬

اپنا تبصرہ بھیجیں