مولانا کو کورونا نے ڈس لیا؟ تحریر : فداعدیل

مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ لپیٹ کر نجی محفلوں میں “کچھ ہی مہینوں کی بات” قرار دے کر معاملے کو آسان بنانے کی کوشش کی تو طرح طرح کے تبصرے کئے گئے، کسی نے کہا مولانا کی سیاست بند گلی میں جاکر رک گئی، کسی نے کہا مولانا نے بہت کچھ حاصل کرلیا ہے، مولانا نے کیا کچھ حاصل کیا ہے اور کیا کچھ کھویا ہے، ہمیں نہیں معلوم، ہاں اتنا معلوم ہے کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں سب اچھا نہیں چل رہا، وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی ایک دوسرے کے ساتھ سینگ پھنسا بیٹھے ہیں، ہاتھیوں کی لڑائی میں چونٹیوں پر بھی لرزہ طاری ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں شروع دن سے “فارغ کرو، بھرتی کرو” کا کھیل جاری ہے، ہاتھیوں کی اسی لڑائی کے نتیجے میں خیبر پختونخوا کے تین وزیروں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا اور اب تازہ زلزلے کے جھٹجے جہانگیر ترین والے معاملے پر محسوس کئے گئے، یہ کھیل ابھی رکا نہیں، تخریب کے بعد ایک بار پھر مرمت کا کام شروع کردیا گیا ہے، علیم خان کی دوبارہ بھرتی بظاہر مرمت ہی ہے لیکن یہ کنسٹرکٹو مرمت ہر گز نہیں ہے۔ گند کو قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش شاندار طریقے سے جاری ہے، کورونا وائرس نے ملکی سیاست پر بھی دو طرح سے اثر انداز ہونا شروع کیا ہوا ہے، کورونا ایک جانب حکومت کے لئے عذاب بھی ہے اور دوسری جانب سے رحمت بھی۔ بہت سے ضروری اور کرنے والے ایسے کام رک گئے ہیں جو سلطنت عمرانیہ کے مفاد میں نہ تھے، پشاور میں مولانا فضل الرحمان کورونا کا ڈر اور خوف پریس کلب کے باہر فوجی چیک پوسٹ کے ساتھ رکھ کر اچانک پریس کلب کے احاطے میں داخل ہوئے تو صاف لگ رہا تھا کہ وہ کافی عرصے بعد ہشاش بشاش ہیں اور ایک انجانے بوجھ کو کہیں اتار پھینک آئے ہیں، مولانا فضل الرحمان کے لہجے میں حکومت کے لئے نرمی بھی پہلی دفعہ محسوس کی گئی، جیسے مولانا بھی انہی دنوں میں ڈرامہ “جا تجھے معاف کیا” دیکھ کر آئے ہوں، مولانا فضل الرحمان سے جب سوال کیا گیا کہ کیا ابھی بھی آپ حکومت کے مستعفی ہونے کے مطالبے پر قائم ہیں؟ سوال کرنے والے کو شاید مولانا کے چہرے کے اطمینان نے ایسا سوال کرنے پر مجبور کیا تھا، مولانا کا کہنا تھا کہ ہم نے کورونا کا مسلہ سامنے آنے کے بعد سب کچھ معطل کردیا ہے، اس تعطل میں سب کچھ آجاتا ہے۔ اگلا سوال بنتا بھی یہی تھا کہ کورونا سے فائدہ کس کو ہوگا؟ مولانا بولے یہ انسانی مسلہ ہے اس کے سیاسی فائدے نقصان میں ہم نہیں پڑنا چاہتے۔ مولانا کے اس جواب کے بعد مجھے 126 دن والا دھرنا اور سانحہ آرمی پبلک سکول شدت سے یاد آیا۔ رہی کورونا کے مولانا کو ڈسنے والی بات۔۔۔۔ تو جناب اس بات میں کوئی صداقت نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں