قیامت سے قیامت تک تحریر عامر خان

قیامت سے قیامت تک

تحریر عامر خان

کرونا وائرس نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ دیئے ہیں. اب ہر کسی کو اپنے گھر کی منڈیر پر موت کا فرشتہ بیٹھا نظر آرہا ہے اب یونہی محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ہر کوئی حضرت عزرائیل علیہ السلام کا میزبان بن چکا ہے یا پھر بننے والا ہے انسانی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بنی نوع انسان اس سے پہلے بھی کئی وبائی مسائل کی تاریخ اپنے پیاروں کو کھو کر غم کے اوراق پر درج کرچکی ہے۔ جہاں انسان نے انسانی ترقی کے ثمرات کا فائدہ حاصل کیا ہے تو وہاں دوسری طرف اپنی ہی ترقی سے خود کئی بڑے مسائل کا شکار بھی ہوا ہے مثال کے طور پر میں یہ بات انتہائی وثوق سے کہتا ہوں کہ انسان نے اس سے قبل ماضی دور یا نزدیک میں اتنے بڑے پیمانے پر نفسیاتی دباؤ کا سامنا نہیں کیا کیونکہ آج کی نسبت پہلے اطلاعات کی رسائی کبھی اتنی آسان نہیں تھی جس کو گلوبلائزیشن کا نتیجہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس سے پہلے انسان نے کئی مسائل کا سامنا کیا چاہے وہ قدرتی آفات کی بے رحمی ہو یا پھر انسانی جنگی جنون کی داستان ستم ظریفی ہو اگر زلزلے،سیلاب بیماری یا پھر کسی آفت نے اولادِ آدم کو خاک برد کیا ہو یا ھلاکو خان، ہٹلر، تیمور لنگ یا پھر کسی سپر پاور ملک نے انسانی خون سے ہولی کھیلی ہو۔ کیونکہ ماضی میں جب بھی کوئی آفت آتی تھی تو انسان چونکہ ترقی نہیں کی تھی آج کے مقابلے میں تو اس وقت اس مصیبت کے خوف کا اثر صرف ان لوگوں تک محدود رہتا جو اس کے قرب و جوار میں ہوتے تھے یعنی بس صرف قریب کے علاقوں تک اطلاع پہنچی تھی کیونکہ اس وقت گلوبلائزیشن نام کی کوئی چیز نہیں تھی تو صرف وہی لوگ وقت سے تھوڑی دیر پہلے اپنے انجام سے خبردار ہوتے اور باقی لوگ آرام کی نیند سو رہے ہوتے کیونکہ اگر کسی کو خبردار کردیا جائے کہ اب آپ پر مصیبت آنے والی ہے تو مصیبت کے آنے والے درمیان تک کے وقت کی اذیت ذہنی طور پر انتہائی اعصاب شکن لمحوں اور بے تحاشہ برے مفروضوں کی شدت قرب و جوار کے لوگوں تک محدود رہتی اور ایک انتہائی کرب کو جنم دینے کا باعث بنتی۔لیکن آج انہی حالات کا سامنا ساری دنیا کو کرنا پڑرہا ہے گلوبلائزیشن کی چھتری کے نیچے یہ تیزی سے معلومات تک رسائی کی ترقی کا خمیازہ ہے جس کو ہم بھگت رہے ہیں کیونکہ انہی معلومات کے راستے سے بعض لوگ دوسروں تک غلط معلومات پہنچا کر اذیت،غلط فہمی اور خوف وہراس کا سایہ بنا کر مسائل کو گھمبیر سے گھمبیر تر کرتے جارہے ہیں۔اس کی مثال گزشتہ دن اس طرح سے سامنے آئی کہ کینیا میں ایک پادری نے صحت مند لوگوں کو ڈیٹول پلا کر 59 لوگوں سے زائد کی جان لے لی پادری کا کہنا تھا کہ ڈیٹول پینے سے کرونا وائرس نہیں ہوگا کیونکہ یہ جراثیم کش ہے ماضی میں جن وبائی آفات نے انسانی المیوں کو جنم دیا ان میں چند بڑے واقعات کرتا ہوں مانا جاتا ہیکہ 1918 میں سپینش فلو سے پوری دنیا میں 5 کروڑ کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے جن کی زیادہ تر عمریں 15 سے 30 سال کے درمیان تھیں۔ اسی طرح جنگ عظیم دوئم میں کم وبیش 8.5 کروڑ لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا پھر 1957 میں ایشیائی فلو سے 11 لاکھ سے زیادہ لوگ زندگی کی بازی ہار گئے اسی طرح ہانگ کانگ فلو سے 5 لاکھ لوگ ایشیا میں مرے اور امریکن فوج وہی وائرس اپنے ساتھ امریکہ لیکر گئی کیونکہ اس دوران وہ ویتنام میں تھی تو امریکی فوج نے انجانے میں اس وائرس کو امریکہ منتقل کیا جس سے امریکہ میں 10 ہزار سے زائد لوگ ھلاک ہوئے اسی طرح 2009 میں سوائن فلو سے تقریباً 2 لاکھ اموات ہوئیں سوائن فلو ہی کی طرح کا وائرس سور میں پایا جاتا ہے مانا جاتا ہیکہ یہ اسی جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا اور اس کی نشاندھی میکسیکو میں ہوئی پھر ایسی ہی دو مشہور وبائیں پولیو اور ایڈز بھی ہے جو کہ کرونا سے بھی زیادہ خطرناک ہے اس میں ایڈز کی وبا سرفہرست ہے جس کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا یہ مرض 1981 میں پہلی بار منظر عام پر آیا اور اس وقت سے لیکر اب تک یہ مرض 7 کروڑ سے زائد لوگوں کو متاثر کرچکا ہے اور تقریباً 3.5 کروڑ لوگوں کی جان لے چکا ہے، مندرجہ بالا وبائی امراض کے مقابلے میں کرونا وائرس ابھی تک 200 ممالک میں اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے اور تادمِ تحریر ان ممالک میں متاثرہ افراد کی تعداد لگ بھگ 4 لاکھ کو پہنچ گئ ہے اور کرونا وائرس کے باعث 17 ہزار سے زائد لوگ ھلاک ہوچکے ہیں جبکہ اس بیماری سے ایک لاکھ سے زائد لوگ صحت مند ہو کر گھروں کو لوٹ گئے ہیں ماضی کے مقابلے میں کرونا وائرس سے خوف پچھلی بیماریوں سے کئی گنا زیادہ ہے اس کی کئ وجوہات ہیں جن میں سے جلدی موت واقع ہونا،علاج کا نہ ہونا پھر پھیلاؤ کی رفتار اور سب سے بڑھ کر مفروضے اور غیر سنجیدگی یہ تمام عوامل مل کر اس کو خطرناک صورتحال کی طرف دھکیل رہےہیں تمام دنیا کے ماہرین طب اس کوششوں میں مصروف ہیں کہ کرونا وائرس کو جلد از جلد قابو کیا جائے اور یا پھر کم از کم اس کے اثرات کو محدود پیمانے تک رکھا جائے،کرونا وائرس کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے اور اس کے لیے جو لائحہ عمل تیار کیا جارہا ہے اس کے لیے وبا ماڈلنگ کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے اور اس کے لیے چین کے شہر ووہان جہاں سے اس مرض نے جنم لیا تھا اس کے ڈیٹے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی فہرست ترتیب دی جارہی ہے مثال کے طور پر اگر ایک شخص متاثر ہوتا ہے تو وہ اپنے ساتھ 2 اور لوگوں کو متاثر کرے گا اور ایک ماہ بعد اس حساب سے 2 سو افراد ایک شخص سے متاثر ہوں گے اور پھر ان 2سو لوگوں سے مزید کتنے لوگ متاثر ہونگے آپ لوگ اندازہ لگا لیں لیکن یاد رکھیں کہ یہاں کم سے کم کی شرح کا اندازہ لگایا گیا عام طور پر جو ایک استطلاح وبا استعمال ہوتی ہے اس کی تفصیل کچھ ایسی بنتی ہے کہ جب کوئی بیماری بیک وقت ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہورہی ہو اور کسی بھی بیماری کے بہت بڑے پیمانے پر زیادہ علاقے میں پھیلاؤ کے اثرات کے لیے جو لفظ یا نام استعمال کیا جاتا ہے اسے استطلاح کو وبا کہتے ہیں،
کرونا وائرس کے اثرات کا ایک خمیازہ ہمیں یہ بھی بھگتنا پڑ رھا ھے کہ ہم سب اس کے ساتھ ایک دوسرے مرض یعنی اضطراب کا بھی شکار ہورہے ہیں جس کو جدید طب میں OCD یعنی Obsessive-compulsive Disorder کہا جاتا ہے ہم اس کا بھی شکار ہو رہےہیں OCD دراصل ایک نفسیاتی پیچیدگی کا مرض ہے اور اس کا علاج بھی نفسیاتی طور پر کیا جاتا ہے، اس مرض کے علاج میں سکھایا جاتا ہے کہ آس پاس کے ماحول سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں جس طرح OCD کا مریض محسوس کرتا ہے مثلاًOCD مریض سوچتا ہے کہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ 20 سیکنڈ تک ہاتھ دھوئیں تو مریض بار بار ہاتھ دھوتا ہے اس خطرے کے پیش نظر کے یا تو اس نے پورے 20 سیکنڈ تک ہاتھ نہیں دھوئے یا پھر اس سے دوران صفائی ہاتھ کا کوئی حصہ دھلنے سے رہ گیا یا پھر گھر کی فلاں کنڈی یا لاک پر جراثیم بیٹھے ہیں یا پھر گھر میں تولیے کے ساتھ جراثیم لٹک رہے ہیں یا جو میں کھانسا ہوں یا کوئی اور کھانسا وہ کرونا کا مریض بن گیا ہے یا پھر کھانے کے اوپر جراثیم بیٹھے ہیں وغیرہ وغیرہ خدشات دماغ میں گھر کر جاتے ہیں اس طرح کے مسائلِ سےOCD کا مرض جنم لیتا ہے اس پر قابو پانے کے دو طریقے ہیں نمبر ایک آپ مظبوط اعصاب کے مالک ہوں یا پھر آپ اپنے کسی پسندیدہ مشاغل میں اپنے آپ کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ مشغول رکھیں جیسے پسندیدہ فلم دیکھنا گیمز کھیلنا فوٹوگرافی کرنا، ویڈیوز بنانا کچھ لکھتے رہنا کتابیں پڑھنا یا پھر کچھ بھی لیکن دوسرے انسانوں سے فاصلے میں رہنا، اس لئے کہ آپ یا کوئی دوسرا اس کرونا مرض کے پھیلاؤ کا سبب نہ بنے ۔ برطانیہ میں یہ اندازے لگائے جارہے ہیں کہ جس رفتار سے یہ مرض پھیل رہا ہے تو ایک اندازے کے مطابق ان حالات میں برطانیہ کے اندر 2.5 لاکھ لوگوں کی ھلاکت کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے پاکستان کے مقابلے میں برطانیہ کی آبادی 6.6 کروڑ کے قریب ہے اگر اسی اندازے کو لیکر پاکستان پر استعمال کیا جائے تو پاکستان کی آبادی اس وقت 21 کروڑ ہے اور اس حساب سے ہمارے ہاں آبادی کے لحاظ سے شرح اموات تقریباً خدانخواستہ سات لاکھ سے تجاوز کرسکتی ہے کیونکہ برطانیہ کے مقابلے میں صحت کی سہولیات مالی وسائل اور تعلیم کی کمی جیسے معاملات میں ہم برطانیہ سے بہت پیچھے ہیں۔
میں نے اپنی تین دھائی پر محیط زندگی میں پہلی مرتبہ لوگوں کو چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دیتے سنا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا خوف تو عیاں ہوا لیکن ایک مثبت بات یہ دیکھنے میں آئی ک ہمارے یہاں وہ لوگ جو اس مرض کو سنجیدہ نہیں لیتے تھے اب سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور کرونا جیسے مرض کو سنجیدہ مسئلہ سمجھ کر اس کا مقابلہ کرنے کے لئے بہتر لائحہ عمل پر عمل پیرا ہوں گے انشاءاللہ بہت جلد وہ وقت آئے گا کہ دنیا اس عذاب سے چھٹکارا تو پا لے گی لیکن قدرت اپنا خراج لیکر ہی پلٹے گی انسانی المیہ ہے کہ وہ حادثے کے بعد سیکھتی ہے پہلے نہیں دراصل یہ خدا کے انصاف کا وقت ہے اللّٰہ تعالٰی نے ہم سب کو بہت موقع دیا معافی کا اپنی کوتاہیوں غلطیوں گناہوں اور ظلم روکنے کا، اب جو لوگ اپنے رب سے تہہ دل سے معافی مانگ کر اپنے آپ کو بخشوا چکے ہوں گے وہ مطمئن بیٹھے ہوں گے یا پھر مطمئن قلب کے ساتھ لوٹ گئے ہوں گے رب کی طرف،
لیکن جو لوگ میری طرح اپنی باری کا انتظار میں بیٹھے ہیں کہ اب کیا ہوگا تو ان سے گزارش ہے کہ بجائے انتظار کے ہمیں چاہیے کہ ہم رو دھو کر سچے دل اور نیت سے اللّٰہ تعالٰی سے معافی مانگیں، اور پھر مطمئن بیٹھ جائیں یا لوٹ جائیں لیکن ایک بات یاد رکھیں خدا دلوں کے بھید خوب جانتا ہے ہم کو گزشتہ گناہوں کی معافی اور آنے والے وقت میں گناہوں، ظلم و جبر اور ناانصافی سے سچے دل سے توبہ تائب ہونا پڑے گا کیونکہ رب العالمین خوب جانتا ہے کہ میں نے ماضی میں کیا کچھ کیا اور آگے کیا کروں گا جو بچ جائیں یہاں ان کے لیے پھر سے ایک امتحان شروع ہوگا اور جو چلے جائیں گے ان کے لئے ان کا انجام۔
کرونا جیسے مصیبت کے بعد دنیا کو جس مصیبت کا سامنا مستقبل قریب میں کرنا پڑے گا وہ ہے معاشی تباہی ۔ آج کرونا مرض سے جہاں دنیا کا ہر فرد جسمانی و ذہنی طور پر متاثر ہوا ہے یقین کریں کہ مالی طور پر بھی کم وبیش ایسا ہی متاثر ہو رہا ہے اور ہوگا بھی کیونکہ یہ اسی انسانی ترقی کے ثمرات ہیں جس کے لیے ہم ایک دوسرے کے ساتھ ظلم کرتے رہتے ہیں کیونکہ دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھے انسان کے ہم پلّہ آنا چاہتے ہیں آج اگر تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی کا اعلان ہوا لیکن لوگ اس وقت اس میں دلچسپی نہیں لے رہے بلکہ ان کی نظر ہر جگہ یہ خبر ڈھونڈنے کے لیے بے تاب ہے کہ اس مرض کی دوا کہیں سے ایجاد ہوجائے اور دوسری دلچسپی اس خبر میں ہوتی ہے کہ اس مرض کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد کہا تک پہنچی آیا رکی کہ نہیں اور کتنے لوگ اس مرض سے صحت یاب ہوکر گھروں کو لوٹے ،
کبھی ہم نے سوچا کہ یہ جو ہم ایک دوسرے کے ساتھ ناانصافی کرتے رہے ہیں کہیں کسی کا جسم کاٹا تو کہیں میرٹ کی دھجیاں اڑائیں تو کہیں اپنی جیب بھرنے کے لیے کسی کمزور کے پیٹ کو چاک کیا تو کبھی خدا کو تو مانا لیکن کبھی خدا کی نہیں مانی میری التجاء ہیکہ آئیں کسی کی نہیں سنتے بلکہ آؤ بیٹھ کر خدا کی مانتیں ہیں آئیں سب مل کر اپنی ناجائز خواہشات کی لاشیں دفن کر آتے ہیں آئیں ضد اور انا کی میت کو لحد میں اتار دیتے ہیں آئیں ناانصافی کی چتا کو آگ لگا دیتے ہیں آئیں جھوٹ اور رشوت کے لاش کو گدھ کے آگے ڈال آتے ہیں بے گناہوں کے قتال کی ہولی سے ہاتھ رنگنا ترک کر دیتے ہیں آئیں اپنے آپ کو سہولتوں میں ڈال کر دوسروں کے سکون کو چھیننے والی پھانسی کی رسی کو ہمیشہ کے لئے لپیٹ لیتے ہیں
آئیں گناہوں کے بازاروں کو ہمیشہ کے لئے مقفل کر دیتے ہیں آئیں غرور اور تکبر کو زندہ زمین میں گاڑ دیتے ہیں آئیں آئیں غریب اور امیر کی تفریق کو دریا برد کر آتے ہیں۔
تو بس پھر آئیں خدا کی بتائی ہوئی انسانیت کو جنم دیتے ہیں کہ پھر ہم سرخرو ہوکر مطمئن ہوکر موت کا انتظار کریں نہ کہ موت کے خوف میں مبتلا ہو کر گھٹ گھٹ کر مریں کیونکہ ہم نے جی کر مرنا ہی تو ہے اور پھر وہاں ہمیشہ رہنا ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں