پریوں کادیس کوہستان؟ کاش اس کا بھی کوئی ہمدردہوتا۔ قسط -1 تحریر ساجمل یودن۔

ضلع کوہستان 1973 میں معرض وجود میں آیا، یہ دریا سندھ کے مشرقی اور مغربی کنارے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ ضلع تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت میں تین اضلاع مین تقسیم کرکے لوئر کوہستان اور کولئی پالس کوہستان کو الگ اضلاع کا درجہ دیا گیا۔۔یہ تینوں اضلاع صوبے کے پسماندہ ترین اضلاع ہیں۔ یہاں خواتین کی شرح خواندگی 2 فیصد جبکہ مردوں کی شرح خواندگی 15 فیصد ہے، اہل کوہستان کی سیاسی شعور سے دوری اور تعلیمی فقدان کوہستان کی پسماندگی کا باعث بنا کیونکہ سیاسی ایوانوں منتخب رہنماوں کی موثر آواز آج تک نہیں اٹھی اور نہ ہی کسی نے کوشش، جس کے باعث بدترین تعلیمی نظام کوہستان کا مقدر بنا، اس دور میں بھی کوہستان کے عوام پارٹی یا لیڈر کے بجائے مقامی لوگوں کو اور زات برادری کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں بلکہ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جو ایم پی اے یا ایم این اے منتخب ہوگا وہی جا کر صوبے کا وزیر اعلیٰ یا ملک کا وزیر اعظم منتخب کریگا۔۔۔کوہستان کے 80 فیصد سکول عرصہ دراز سے بند ہیں، اور طبی مراکز کو بھی حجرے بنائے گئے ہیں یا پھر تالوں سے آزادی نہیں ملی۔ اپر کوہستان کی تین لاکھ سے زائد آبادی جہاں کوئی بھی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال نہیں ہے صرف ایک ریجنل ہیلتھ سنٹر ہے جہاں ادویات کم اور مریض زیادہ ہوتے ہیں، لیبارٹری کئی سالوں سے بند ہے۔۔۔ یہ دنیا کا واحد ضلع ہے جہاں پورے ضلعے میں کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود نہی، صرف ایک ایمبولنس اور ایک لیڈی ہیلتھ ورکر تعینات ہے۔صحت کی سہولیات کی محرومی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے، کہ متحدہ مجلس عمل کے دور حکومت میں شروع ہونے والا ڈی ایچ کیو ہسپتال کا منصوبہ اب تک زیر تعمیر ہے۔
کوہستان کی پسماندگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے خوبصورت مقامات اب تک دنیا کے سامنے نہیں دیکھائےگئے، یہاں کی سوغات اور جنگلی حیات سے دنیا بے خبر ہے۔۔کوہستان خیبرپختونخوا کا وہ دوسرا ضلع ہے جہاں سالانہ مارخور کا ٹرافی ہنٹگ کے تحت قانونی شکار ہے، جس کے لئے غیر ملکی شکاری ڈیڑھ سے دو کروڑ روپے آدا کرتے ہیں، یہ وہ واحد علاقہ ہے جہاں کشمیری اور استور مارخور ایک ساتھ ایک ہی ایک مقام پر پائے جاتے ہیں باقی ہر جگہ الگ الگ پائے جاتے ہیں۔۔۔ضلع کوہستان کی وادی سوپٹ جہاں کی قدرتی جھلیں اور سرسبز وادیاں خوبصورتی کی اعلٰی مثال ہیں، وادی سوپٹ میں دنیا کا بہترین ٹراوٹ پایا جاتا ہے، یہاں برفانی ریچھ اور دنیا کا نایاب پرندہ جیجیل بھی پایا جاتا ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف کوہستان سالانہ 30 سے 40 لاکھ روپے مارخور کی ٹرافی ہنٹگ کی مد میں صوبائی حکومت کو ادا کرتا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے یہاں پورے ضلع میں ان جانوروں کی تحفظ کیلئے صرف 4 نگہبان اور ایک ایس ڈی ایف او تعینات ہے جن کے پاس کوئی سرکاری گاڑی دستیاب نہیں ہے۔ ملک کادوسرا بڑا بجلی کا منصوبہ کوہستان کے علاقے داسو کے مقام پر دریا سندھ پر جاری ہے 4 ارب ڈالر کا منصوبہ ساڑھے 4 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کو فراہم کریگا جس سے بجلی کی آدھی قلت ختم ہوجائے گی۔ اسکے علاوہ دوبیر اور پٹن پاور پلانٹس سے سینکڑوں میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔
کوہستان میں 90 کی دہائی تک زمانہ قدیم کی رسومات چلی آرہی تھیں، لیکن اسکے بعد رفتہ رفتہ وہ روایات معدوم ہونے لگیں۔ جیسے کہ ایک وقت تھا کوہستان میں دشمنیاں ہواکرتی تھیں، مقامی لوگوں یا قبیلے کی قابلیت اور طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا تھا کہ قبلہ کب سے دشمنی کر رہا ہے اور کتنے مخالف قبیلوں کے ساتھ کررہا ہے۔90 کی دہائی تک حکومتی رٹ بھی نہ ہونے کے برابر تھی، جنگلات کا کٹاو اور ٹمبر سمگلنگ سے روک ٹوک نہیں تھی، جبکہ کھلے عام بازاروں میں غیر لائسنس یافتہ بندوقوں کی نمائش ہوتی تھی، لیکن اب ایسا نہیں ہے وہاں نہ صرف جنگلات کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے بلکہ جنگلی حیات بھی مکمل محفوظ ہیں جسکی ایک مثال کئیگاہ مارخور کنزرویزشن کمیونٹی ہے، جس نے کئی دہائیوں سے مارخور کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے اور باقاعدہ طور پر پہاڑوں پر چوکیدار تعینات کئے گئے ہیں، جو ہر موسم میں ماخور کی نگہبانی کرتے ہیں۔۔۔دشمنیاں بھی دم توڑ گئی ہیں، اور حکومتی رٹ بھی تقریبا بحال ہوچکا ہے۔ کوہستان کی نصف آبادی شاہراقراقرم سے نکل کر وادیوں میں آباد ہے جہاں لوگ بنیادی انسانی سہولیات سے مکمل محروم ہیں۔۔۔سکول، ہسپتال اور سڑکوں کا نظام صفر ہے جسکے باعث شہر کے علاقوں وادیوں میں جدت نہیں آئی ہے، اور نہ ہی لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوسکی ہے۔ (جاری)۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں