انصاف والوں کا انصاف ۔۔۔۔ تحریر یاسر حسین

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طویل جدوجہد اس وقت رنگ لے آئی جب 2013 میں خیبرپختونخوا کے غیور عوام نے زمام اقتدار انہیں سونپ دیا ۔ کیونکہ اس سے قبل اے این پی ، ایم ایم اے ، مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی کو آزمانے کے بعدان کے لئے امید کی امید کی آخری کرن تحریک انصاف ہی تھی ۔مگر 2013 سے لے کر آج بھی عوام انصاف ہی کے طلب گار ہیں ۔مارچ 2020 میں کورونا کے باعث کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے انصاف والوں پر جو پردے ڈال رکھے ہیں وہ بھی لاک ڈاون ختم ہونے کے ساتھ جلد ہٹ جائیں گے۔ تحریک انصاف کی سیاست کو جھٹکا دینے کے لئے بی آر ٹی کا ادھورا منصوبہ ہی کافی ہے ۔جو آج بھی اس کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ 2013 سے 2015 تک عوام کو سنہرے خواب دکھائے گئے یعنی کرپشن کا خاتمہ ، نوکریاں ، غربت کا مکمل خاتمہ ، ترقیاتی کام ، تعلیمی ایمرجنسی جیسے اعلانات مگر اس پر عمل درآمد کے آج بھی عوام منتظر ہیں۔

 یہ بھی پڑھئے :  دُنیا ! بعد از کورونا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: ماہ نُور فخری ۔ صحافی

اپنے ہی بنائے ہوئے احتساب کمیشن کا صرف ڈیڑھ سال میں لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کے خود ہی بند کر دینا ابھی تک ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کسی عہدیدار کے پاس نہیں ۔اسی پر ہی بس نہیں بلین ٹری سونامہ کو بھی آج پوچھنے والا کوئی نہیں ۔حالانکہ خان صاحب ہمیشہ ہر جگہ خیبرپختونخوا کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو گئی ہیں۔ لیکن ایسا صرف خوابوں کی حد تک حقیقت میں ابھی تک عملی طور پر کچھ نہیں ہو سکا۔ آج تو وزیراعظم عمران خان بھی سرسری سا خیبرپختونخوا کا ذکر کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر لیتے ہیں۔ لیکن یہاں مسائل کے انبار پڑے ہیں جن میں بڑھتی بے روزگاری ، سرکاری اداروں میں کرپشن کی دوڑ ، پیسوں کے عوض نوکریاں دینا ، احتساب اداروں کی پراسرار خاموشی ، صوبائی دارالحکومت پشاورمیں قابو سے باہر ٹریفک کا اژدھام ، خستہ حال سڑکیں ، کابینہ میں کھینچا تانی ، من پسند افسران کو دو دو اداروں کا سربراہ بنانا لیکن ان سب مسائل کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، حالانکہ یہ پشاور کی خوش قسمتی ہے کہ گورنر ، سمیت محکمہ بلدیات ، جنگلات ، پارلیمانی سیکرٹری برائے داخلہ کے نمائندے اسی شہر کے باسی ہیں مگر اس کے باوجود پھولوں کے شہر کی تقدیر آج بھی بدل نہیں سکی ۔ہاں اگر کامیاب ہیں تو صرف اپنا ووٹ بنک اوربنک اکاونٹ کو بھرنے میں ، اس انصافی حکومت سے انصاف کی امید میں عوام نے ان کے نمائندوں کونرم ملائم سیٹوں پر بیٹھنے کا موقع دیا ۔لیکن یہاں تمام بیوروکریسی اسلام آباد کے اشاروں پر چل رہی ہے ،

 یہ بھی پڑھئے : کرونا وائرس کی نئی کروٹ اور خدشات کو تقویت اظھر علی شاہ

فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم تو کر لیا گیا لیکن اس میں حکومت کو بندوبستی علاقوں کی طرح کامیابی نہ مل سکی عوام کے منتخب نمائندوں کی بجائے پیرا شوٹروں کو ترجیح دینا سمجھ سے بالا تر ہے۔ 2018 کے بعد کسی کو یاد ہے کہ تعلیم ، صحت اور پولیس میں کتنج اصلاحات کی گییں ؟ سرکاری سکولوں میں امیروں کےکتنے بچوں کو داخل کرایا گیا ، کتنے نئے اسپتالوں کی تعمیر کی گئی ، ہم پنجاب اور سندھ کی پولیس کو تو برا بھلا کہتے ہیں مگرخیبرپختونخوا کی پولیس میں کیا ہو رہا ہے یہ تو کوئی بتانے والا نہیں۔ہاں اتنا کہیں گے کہ خیبرپختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کے غیور عوام کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ جو تبدیلی کے سنہرے خواب دکھائے گئے تھے وہ شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے یا نہ کئے گئے ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب 2023 کے لیے عوام انتہائی سوچ سمجھ کر ووٹ پول کرے گی۔ اب تو سوشل میڈیا نے ہر طبقے کو اتنا شعور دے دیا ہے کہ اب جتنا بھی ڈھول پیٹاجائے ناچنے والا کوئی نہیں ہوگا۔



ادارے  کے نمائندے 24 گھنٹے آن لائن رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کالم نگار کی رائے سے ادارے کامتفق ہونا ضروری نہیں ہے 

اپنا تبصرہ بھیجیں