خواجہ سرا اور ہمارا معاشرہ۔۔۔ خصوصی تحریر: مہویش تسلیم

خواجہ سرا ہمارے اس معاشرے کا ایسا مظلوم طبقہ ہے جن کے حصے میں اپنے گھر والوں کا پیار آتا اور نہ ہی دوستوں کا، لوگوں کے مذاق، تشدد، مارپیٹ اور طرح طرح کے ظلم برداشت کرنے والے کترینہ خان کا شمار بھی اسی مظلوم طبقے میں ہوتا ہے جس کے لئے سب سے پہلے اپنے گھر میں زندگی تنگ کر دی گئی۔ ماں کے انتقال کے بعد اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اب اس گھر اور گھر کے مکینوں کے دلوں میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی۔ایک اور دوست خواجہ سرا کی وساطت سے وہ ایک شخص سے ملا جسے سب گورو کہتے تھے اور یوں دوسرے بہت سے خواجہ سراؤں کی طرح وہ بھی اس گورو کا چیلا بن گیا یہیں اسے کترینہ خان کا نام ملا اور اس نے گورو کاتحفہ سمجھ کر اس نام کو بھی دل سے لگا لیا۔ شروع کے دن بہت سخت تھے، اسے اپنے مرضی اور طبیعت کے خلاف بہت سے کام کرنے پڑے ۔2017 میں کترینہ کو خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم کے زیراہتمام ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا اور یہی وہ موقع تھا جس نے اس کی زندگی کا دھارا بدل دیا۔ اسے اپنے اور اپنے جیسے دیگر خواجہ سراؤں کے حقوق کے بارے میں پتا چلا اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ نہ صرف اپنے بلکہ اپنے جیسے تمام مظلوموں کے حق کے لئے لڑے گا۔ اس نے Welfare Organization REST کی بنیاد رکھی اور یہ ریسٹ بھی آرام والا نہیں تھا۔ Rسے ری ہیبیلٹیشن، E سے ایجوکیشن، S سے سکل ڈویلپمنٹ اور T سے ٹریننگ فار ٹرانس جینڈر کے نام سے اس تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا بنیادی مقصد ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لئے کام کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ناچ گانے اور دیگر غیراخلاقی سرگرمیوں سے بچانے کے لئے جدوجہد کرنا تھا۔کترینہ خان اس تنظیم کی صدر ہیں اور ان کے ساتھ کابینہ میں مزید سات اور لوگ بھی ہیں جو سب ٹرانس جینڈر ہیں۔ اس تنظیم کے ساتھ رجسٹرڈ خواجہ سراؤں کی تعداد 150 ہے۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے اب تک 50 سے 60 خواجہ سراؤں کو مختلف ہنر سکھائے جا چکے ہیں جن میں ٹیلرنگ، ڈریس ڈیزائننگ، بیوٹیشن، جیمز سٹون، موبائل رپیئرنگ اور سلمیٰ ستارہ جیسے ہنر شامل ہیں۔کترینہ خان کا کہنا ہے کہ اس سمیت بہت سے خواجہ سرا ناچ گانے سمیت دیگر سرگرمیاں ترک کر کے اپنا باعزت روزگار کما رہے ہیں۔ کترینہ خان کا کہنا کہ ہم صلاحیتوں میں کسی سے بھی کم نہیں ہیں۔ ہماری جسمانی خامی قدرت کی طرف سے ہے ورنہ کسی انسان کو شوق نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسے شعبے میں جائے جہاں اس کی عزت نفس کی دھجیاں اڑا دی جائیں، ہمیں نہ گھر والے قبول کرتے ہیں نہ معاشرہ۔ میری خواہش ہے کہ ٹرانس جینڈرز کو بھی عزت ملے اور اگر وہ کسی اچھے شعبے میں جا کر باعزت روزگار کمانا چاہتا تو اسے اس کا پورا موقع دیا جائے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے اس کی مدد کی جائے۔انہیں بھیک مانگنے، ناچنے گانے یا کسی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں پر مجبور کرنے کی بجائے معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کا موقع دیا جائے۔کترینہ خان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے لئے قانون سازی کی جائے اور انہیں معاشرے میں باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کے مواقع دیئے جائیں تو خواجہ سراؤں کے خلاف نہ صرف تشدد کے واقعات کم ہو سکتے ہیں بلکہ یہ لوگ معاشرے کا ایک مفید طبقہ بھی بن سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں